پاکستان میں گھر بنانے کی لاگت میں 70 سے 100 فیصد اضافہ


اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان میں تعمیراتی شعبے میں گھر بنانے کی لاگت میں70 سے  100 فیصد اضافہ ہوگیا ہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان کے تعمیراتی شعبے نے کچھ روز قبل وزیر اعظم پاکستان کے نام اپیل ایک اخباری اشتہار کے ذریعے کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ اس شعبے کی لاگت میں 70 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور وزیر اعظم سے اپیل کی گئی کہ وہ اس شعبے کو بچانے کے لیے تعمیراتی میٹریل کی لاگت میں کمی لانے کے لیے اقدامات کریں۔

ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویپلرز(آباد)کے سابق  چیئرمین حنیف گوہر، نے بی بی سی  کو بتایا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ایک عام فرد کے لیے یہ لاگت سو فیصد بڑھ چکی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر تعمیراتی لاگت میں 70 فیصد اضافہ ہوا تو بلڈرز بھی مکانوں کی تعمیر کے لیے 30 فیصد نفع لیتے ہیں اس لیے مجموعی طور پر یہ کاسٹ سو فیصد بڑھ چکی ہے اور اس بڑھی ہوئی لاگت پر اب خریدار مکان خریدنے کو تیار نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ سٹیل، سیمنٹ، ماربل اور دوسرے تمام تعیمراتی میٹریل کی قیمتیں بے پناہ بڑھی ہوئی ہیں۔مارکیٹ میں اس وقت سیمنٹ کی بوری 850 روپے میں دستیاب ہے تو سٹیل کی قیمت 175000 سے 180000 ٹن تک ہے۔ سٹیل کی قیمت ایک سے ڈیڑھ سال پہلے ایک لاکھ سے ایک لاکھ پانچ ہزار ٹن تک تھی تو اسی طرح سمینٹ کی قیمت اس عرصے میں ساڑھے چار سو فی بوری سے 850 روپے فی بوری تک پہنچ چکی ہیں۔

گوہر  کے مطابق  دوسرے تعیمراتی میٹریل جیسے ماربل، ایلومینیم اور رنگ سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں بھی اس وقت اوپر کی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ اگرچہ تعمیراتی  شعبے کے میٹریل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کورونا کے بعد کی صورتحال ہے جب دنیا بھر میں سٹیل اور کول اور دوسری چیزوں کی قمیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کا اثر ملکی تعیمراتی شعبے پر بھی پڑا تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا منفی اثر تعمیراتی شعبے پر اس صورت میں پڑا کہ اس شعبے میں جو تیزی دیکھنے میں آرہی تھی اس میں اب کمی دیکھنے میں آرہی ہے کیونکہ لوگوں کی آمدنی تو پہلے والی سطح پر موجود ہے جب کہ ضروریات زندگی کی چیزوں اور مکانوں کی تعمیر کی لاگت بے تحاشا بڑھ چکی ہے۔

بلڈر عارف جیوا نے بتایا کہ اس شعبے میں اگر ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں تعمیراتی لاگت کو لیا جائے تو یہ 1200 فی مربع فٹ بڑھ چکی ہے یعنی اگر آپ نے اگر 1000 فی مربع فٹ کا گھر بھی بنانا ہے تو اس کی لاگت بارہ لاکھ بڑھ گئی ہے۔عارف جیوا نے کہا لاگت میں 1200 فی مربع فٹ میں اضافہ بہت بڑا اضافہ ہے جو لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔سستے گھروں کا منصوبہ کیسے متاثر ہوا؟تعمیراتی شعبے کے افراد کے مطابق حکومت کی آسان گھر سکیم ایک قرضہ لینے کی سکیم ہے کہ بینک آپ کو قرضہ آسان شرائط پر دینے کی سہولت دیںگے جس میں 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک قرضے مختلف مدت کے لیے دیے جاتے ہیں۔

حنیف گوہر نے کہا کہ یہ ایک اچھا منصوبہ تھا کہ جس میں متوسط طبقے کو اپنا گھر بنانے کے لیے بینکوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے پاس موجود سرمائے کا پانچ فیصد ہاوسنگ لون کے طور پر دیں۔انھوں نے کہا جب لاگت بڑھ گئی ہے تو لازمی طور پر ایک گھر جو پہلے تیس سے پینتیس لاکھ میں بن رہا تھا اس کی قیمت پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی۔اب اگر کوئی قرضہ لیتا ہے تو لازمی طور پر اسے زیادہ قسط دینا پڑے گی۔ مہنگائی تو بڑھی لیکن لوگوں کی آمدن تو گذشتہ سطح پر ہے اس لیے یہ ہو نہیں سکتا کہ اب لوگ زیادہ قسط پر بینک سے قرض لے کر گھر بنائیں۔

دوسری جانب اگر بینکوں کی جانب سے ہاوسنگ شعبے کو جاری کیے جان والے قرض کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو بینکوں نے میرا پاکستان میرا گھر کے تحت اب تک صرف اٹھارہ ارب روپے کے قرضے جاری کیے ہیں جس میں کم لاگت کے مکانوں کی تعمیر ہونا تھی۔اٹھارہ ارب روپے کی رقم اس شعبے کے لیے ایک بہت ہی قلیل رقم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینک یا تو اس شعبے کے لیے کم رقم دے رہے ہیں یا پھر لوگ اس کے لیے کم رجوع کر رہے ہیں۔

مقامی بینک میں اس سکیم سے متعلق امور کو دیکھنے والے ایک بینکر نے بی بی اردو کو بتایا کہ یہ رقم بہت ہی کم ہے بانسبت لوگوں کی جانب سے درخواستوں کے۔انھوں نے کہا بینک لوگوں کی مالی حالت دیکھ کر قرضے جاری کرتا ہے تاکہ اس قرضے کی واپسی یقینی ہو۔انھوں نے اٹھارہ ارب روپے کی رقم کا اندازہ لگانا ہو تو ایک بڑا بلڈر کسی بڑے شہر میں صرف ایک پراجیکٹ پر اتنا بڑا خرچہ کر لیتا ہے اس لیے اٹھارہ ارب کی رقم اب تک اس شعبے میں کوئی نمایاں رقم نہیں۔