نئی دہلی(صباح نیوز) کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسسٹ) نے جموں و کشمیر کے عوام کے آئینی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے نشاندھی کی ہے کہ جموں وکشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ، یو ائے پی اے وغیرہ جیسے سخت قوانین کے تحت شہری آزادیوں اور جمہوری حقوق کو زیر کیا جارہا ہے ۔ سینکڑوں لوگ بغیر کسی الزام کے حراست میں ہیں،سی پی آئی (ایم) نے جموں و کشمیر کے سخت گیر سیکورٹی اور امن و قانون کو ختم کرنے پر زور دیا۔
پارٹی نے کنور کیرالہ میں منعقدہ 23 ویں کانگریس میںجموں و کشمیر کی صورتحال پر قرارداد کو منظوری دی ہے۔پارٹی نے کہا کہ اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی عمل کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہیے۔سی پی آئی ای ایم کا کہنا تھا کہ قابل اعتماد مذاکراتی عمل شروع کیے بغیر امن کی بحالی کی طرف کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے جائز آئینی حقوق کے دفاع کے لیے ملک کی طاقتیں آواز بلند کریں کیونکہ یہ پیچیدہ مسئلہ ملک کی وفاقی، جمہوری اور سیکولر فطرت پر بہت اہم اثر ڈالتا ہے۔قرار داد میں کہا گیا جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور غیر آئینی حملہ کے ساتھ ساتھ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ،سی بی آئی اور این آئی اے وغیرہ جیسی بھارتی ایجنسیوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر بالخصوص نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری ہیں جبکہ پوری آبادی اور ان کے بنیادی حقوق پر بے مثال پابندیاں جاری ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر کے آئین کو من مانے طور پر ختم کرنے کے نتیجے میں سابق ریاست اور مر بھارت کے درمیان تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے،اور اس عمل نے ایک بڑا سیاسی خلا بھی پیدا کر دیا ہے، جس سے خطے میں غیر یقینی صورتحال مزید گہری ہو گئی ہے۔
کیرالہ میں منظور شدہ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ان احکامات اور جموں و کشمیر تنظیم نو کے قانون کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا جا رہا ہے، بھارتی حکومت نے دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ حد بندی کمیشن کی تشکیل، جموں و کشمیر ترقیاتی ایکٹ میں ترمیم اور جموں و کشمیر ریاستی خواتین کمیشن، ریاستی احتساب کمیشن، ریاستی صارف تحفظ کمیشن اور انسانی حقوق کمیشن جیسے اداروں کو بند کیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ حد بندی کمیشن کے طرز عمل کو بڑے پیمانے پر حکمراں جماعت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے طور پر سمجھا جا رہا ہے اور بالغ رائے دہندگان کے سب سے بنیادی اصول کو نظر انداز کر کے، یعنی، ایک شخص، ایک ووٹ، حد بندی کمیشن ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے۔
قرار داد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں بدقسمتی سے تاخیر سے لوگوں میں بڑے پیمانے پر بے چینی پھیل رہی ہے۔ سی پی آئی ایم کی جانب سے تسلیم کی گئی قرار داد میں کہا گیاشہری آزادیوں اور جمہوری حقوق کو زیر کرنے کیلئے افسپاپی ایس ائے اور یو ائے پی اے وغیرہ جیسے سخت قوانین کے تحت بلا روک ٹوک جاری ہے کیونکہ سینکڑوں لوگ بغیر کسی الزام کے حراست میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ2019 کے بعد یکے بعد دیگرے ایگزیکٹو آرڈرز میڈیا کی آزادی کو روکتے ہیں، ملازمین کو سننے کا موقع دیئے بغیر ان کی برطرفی، مقامی افسران کو یک طرف کرنا اور ریاستی کیڈر کا خاتمہ ان میں بڑے پیمانے پر غیر یقینی صورتحال کا باعث بن رہا ہے جس کے نتیجے میں کشمیری عوام کی بیگانگی غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
قرار داد میں کہا گیا کہ سابق ریاست کے مستقل باشندوں کی حیثیت کو بے کار بنا کر، ملازمتوں کا تحفظ من مانی طور پر چھین لیا گیا ہے، اور لوگوں کے ذہنوں میں عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کر دیا ہے جبکہ زمینی قوانین میں لائی گئی ترامیم جموں و کشمیر کی زمین اور وسائل کے استحصال اور آبادیاتی تبدیلی کے عمل کو فروغ دینے کی کھلی دعوت ہے۔ترقی، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے وعدوں کے باوجود خطے کی معیشت خراب ہو رہی ہ ،ڈیلی ویجروں کو با قاعدگی سے اجرت نہیںمل رہی ہے ۔قرار داد مین کہا گیا سابق ریاست کے تمام خطوں کے لوگوں نے بی جے پی کے ‘نیا کشمیر’ کے بیانیے پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔