اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی۔اس سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے اجلاس کے دوران اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر ایاز صادق اجلاس کی صدارت شروع کی۔
اسپیکر اسد قیصر نے ایوان میں آکر اراکین سے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایاز صادق سے کہا کہ وہ پینل آف چیئرمین کے رکن کی حیثیت سے اجلاس کی کارروائی جاری رکھیں۔ایاز صادق نے پینل آف چیئر کے رکن کی حیثیت سے قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت شروع کی اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز کردیا اور اراکین کو طریقہ کار سے آگاہ کرتےگھنٹیاں بجادی۔حکومتی اراکین نے اسمبلی سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ایوان کی نشستیں خالی کردیں۔
ایاز صادق نے ایوان کے دروازے بند کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ 12 بجے اجلاس ملتوی کرنا ہے کیونکہ نیا دن شروع ہوگا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ووٹنگ شروع کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنایا کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔انہوں نے ووٹنگ کا عمل شروع کیا اور 12 بج کر دو منٹ تک کے لیے اجلاس ملتوی کردیا۔دو منٹ کے وقفے کے بعد ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو تلاوت کلام پاک اور نعت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا۔پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی نوید قمر نے قرارداد پیش کی۔ عدم اعتماد کی ووٹنگ پر کارروائی شروع ہوئی، جس پر اراکین نے باری باری ووٹ کاسٹ کیے، قرارداد کے بعد اراکین کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹوں کی گنتی کی گئی ،تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 174 ووٹ ڈالے گئے، جس کے بعد عمران خان ملک کے وزیراعظم نہیں رہے جبکہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے عدم اعتماد کی کارروائی میں ووٹ کاسٹ نہیں کیے۔
قائم مقام اسپیکر نے ووٹنگ کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد بتایا کہ عدم اعتماد کی حمایت میں 174 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے، جس کے بعد اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ آج اپوزیشن جماعتوں کے تمام قائدین یہاں موجود ہیں اور ہم سب نوازشریف کی کمی بہت زیادہ شدت سے محسوس کررہے ہیں ۔خیال رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی کا اہم اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں شروع ہوا، جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور قومی ترانہ بجایا گیا۔
ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے قبل خاتون رکن قومی اسمبلی شازیہ ثوبیہ کی وفات پانے والی والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی تھی۔تاہم دو گھنٹے کے طویل وقفے کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اس کی صدارت امجد خان نیازی نے شروع کی تو دونوں جانب سے رہنماؤں نے طویل تقاریر کی گئیں اور نماز عصر کے لیے 20 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔نماز عصر کے وقفے کے بعد اجلاس شروع نہیں ہوسکا اور اعلان کیا گیا کہ اب نماز مغرب اور افطار کے بعد ساڑھے 7 بجے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے متعلق اجلاس ایک مرتبہ پھر شروع ہوگا۔
بعد ازاں اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور وفاقی وزیر حماد اظہر کی تقریروں کے بعدساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا لیکن اجلاس دیر گئے تک دوبارہ شروع نہیں ہوسکا۔رات کو 12 بجے سے قبل اسپیکر اسد قیصر ایوان میں آئے اور بتایا کہ وہ ان کو ملنے والی دستاویزات کے تحت اس کارروائی کا آگے نہیں بڑھا سکتے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے ایوان چھوڑ کر چلے گئے اور ایوان کی صدارت ایاز صادق نے سنبھال لی۔وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف نے تقریر کی۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف اپوزیشن کی قیادت اور اراکین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ایک نئی صبح طلوع ہونے والی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم سب تمام قائدین تمام اراکین قومی اسمبلی، متحدہ اپوزیشن کے تمام ساتھی اور ہم سب اللہ کے حضور سربسجود ہیں اور اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ آج نئی صبح طلوع ہونے والی ہے، ایک نیا دن آنے والا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کروڑوں عوام، ماؤں، بیٹیوں اور بزرگوں کی دعائیں اور کاوشیں اللہ نے قبول کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں متحدہ اپوزیشن کے اکابرین کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اتحاد، یک جہتی اور انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، جس کی مثال کم ملتی ہے، اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، اخترجان مینگل، نوابزادہ بگٹی، امیر حیدر ہوتی، خالد مگسی، اسلم بھوتانی، علی نواز شاہ، طارق چیمہ، محسن داوڑ، علی وزیر اور ان کے ساتھ جڑےہوئے لاکھوں اور کروڑوں پاکستانیوں کا ہم سب شکریہ ادا کرتےہیں کہ ان کی قربانیاں رنگ لائی ہیں اور آج پھر آئین اور قانون کا پاکستان دوبارہ بنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد ان شااللہ پاکستان کو دوبارہ تعمیر کرے گا، اپنے قائد نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان تمام ساتھیوں نے جیلیں کاٹی ہیں، تاریخ میں شاید پہلا موقع ہے کہ ہماری بیٹیوں اور بہنوں نے جیلیں کاٹی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تین دفعہ کے وزیراعظم نواز شریف کو کس طرح جیلوں میں بھیجوا گیا، ہم ماضی کی تلخیوں میں نہیں جانا چاہتے ہیں، اور تلخیوں کو بھول کر آگے جانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اس قوم کے دکھوں اور زخموں پر مرہم رکھنا چاہتےہیں، ہم کسی سے بدلہ نہیں لیں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہیں کریں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم لوگوں کو بے جا اور بے قصور لوگوں کو جیلوں میں نہیں بجھوائیں گے لیکن قانون اپنا راستہ لے گا، انصاف اپنا راستہ لے گا، اس میں نہ میں، نہ بلاول بھٹو، نہ مولانا فضل الرحمٰن اور نہ کوئی اور مداخلت کرے گا۔انہوں نے کہا کہ انصاف کا بول بالا ہوگا، عدلیہ کا احترام صدق دل سے کریں گے، مل کر مشاورت سے اداروں کے ساتھ مل کر اس ملک کو چلائیں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں پورے پاکستان کو اور اس ایوان کو مبارک باد دینا چاہوں کہ پاکستان میں پہلی بار عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے اور ہم نے تاریخ رقم کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 اپریل 1973 میں اس ایوان نے 1973 کا آئین منظور کیا تھا، 10 اپریل 1976 بینظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کرکے لاہور تشریف لائی تھیں۔انہوں نے کہا کہ آج 10 اپریل 2022 ہے، جس کو ہم نے سلیکٹڈ قرار دیا تھا اور جو غیرجمہوری بوجھ ہم تین سال سے اٹھا رہے تھے آج 10 اپریل 2022 کو پرانے پاکستان کو خوش آمدید۔ان کا کہنا تھا کہ تین سے 4 سال اس ایوان کا رکن رہا ہوں اور ان برسوں میں سیکھا ہے زندگی بھر نہیں دیکھا، میں نوجوانوں کو پیغام دوں گا اپنے خوابوں کو نہ چھوڑیں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ،موولانا اسعد محمود نے کہا کہ قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے جہد مسلسل کے ساتھ آئین کی بالادستی اور حقیقی حکمرانی کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر اپنی منزل پر پہنچ کر پیغام دے رہی ہے کہ ہم 2018 میں پاکستان پر قائم ہونے والی غیر آئینی حکمرانی کا خاتمہ کرکے ایک آئینی حکمرانی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو جدوجہد کی ہے اس کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پاکستان کے تمام اداروں کا جنہوں نے اس گھٹن دور میں بھی آئین اور سیاسی قوتوں کے لیے آواز اٹھائی اور مظلوم طبقے کے لیے ایک مجاہد کا کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ جن سیاسی کارکنوں نے 2018 کے انتخابات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے آئینی اور قانونی جدوجہد کی، آئین اور قانون کو نہیں توڑا اور قانونی جدوجہد کرکے یہ مقصد حاصل کرلیا ہے،بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے کہا کہ ہم جمہوری عمل کا بھرپور حصہ بنے، 12، 13 گھنٹے کی جدوجہد یہ بھی تاریخ کا حصہ بنے گی۔انہوں نے کہا کہ میں آیا تو عجیب طریقے سا تھا لیکن ہم نے باپ ہونے کا حق ادا کیا، باپ پارٹی نے اپنا حق ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ 170 میں 4 ملائے اور آپ سب کو 4 نمبر مبارک ہو، اب اللہ توفیق دے کیونکہ ایک بڑی ذمہ داری کیونکہ منزل آج شروع ہوئی ہے۔خالد مگسی نے کہا کہ شہباز شریف ایک محنتی آدمی ہیں، ان کا تجربہ ہے اور اللہ ان کو توفیق دے گا۔
انہوں نے سب کو مبارک باد دی اور کہا کہ پاکستان کی قوم کو مبارک، ہم بدلہ لینے نہیں آئے ہیں بلکہ خدمت کرنے آئے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد نے اس موقع پر کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں جس آدمی کے ساتھ کھڑا ہوں ان کا نام عمران خان ہے، اس نے حکومت قربان کی لیکن غلامی قبول نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح پہلے اپنی ڈیوٹی سنبھالی تو آج پارلیمانی امور کی ڈیوٹی تمام ہوئی، آج کا دن جہاں بہت سے چہروں کو خوشی دیتےہوئے جا رہا وہی بہت سے سوالات چھوڑ کر جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو دیکھا، ان کو پارلیمانی امور کے وزیر ان کو خوش آمدید کہتا ہوں، لیکن ایک سوال تاریخ ان کے لیے بھی چھوڑے جا رہی ہے جس شخص، جس مرد حر اور مرد بحران کو مولانا فضل الرحمٰن یہودی اور امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ایجنٹ تھا جس کو ہٹانے کے لیے امریکا نے ایڑھی، چوٹی کا زور لگایا۔۔