حضور نبی کریم ؐ نے ایک سفر کے موقع پر رُک کر دو صحابیوں کو کہا تھا ’’ اِس مُردہ جانور کو کھاؤ ‘‘ انہوں نے عرض کی اے اﷲ کے رسول ؐ بھلا مُردہ جانور کو کون کھائے ؟ آپ ؐ نے کہا ابھی تم جو چیز ( غیبت کر کے ) کھا رہے تھے اُس سے یہ بہتر ہے ۔ اﷲ رب العزت نے غیبت سے منع کرتے ہوئے سورۃ الحجرات میں اس فعل کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ لاہور نہر کے کنارے نجی کلب میں ’’پاکستانی اخباری مدیران کی انجمن ‘‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف نے کہا کہ عام طور پر میں اس بات کا اظہار نہیں کرتا ، مگر بوجوہ میں یہاں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں نے اپنے اﷲ سے عہد باندھا تھا کہ کسی کی غیبت نہیں کروں گا ۔ میاں صاحب نے رسول اﷲ ؐ کے فرمان کی روشنی میں کہا کہ کسی مسلمان میں موجود کمزوری کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں وہ موجود ہی نہیں اور کوئی بیان کرتا ہے تو یہ الزام کے زمرے میں آتا ہے ۔ اپنی بات کی وضاحت میں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ غیبت اور الزام کے انفرادی سطح پر بھی بے پناہ نقصانات ہیں مگر جب ذرائع ابلاغ بالخصوص نجی ٹی وی چینلز بغیر تحقیق کے کسی پر الزام لگاتے ہیں تو چند لمحوں میں غلط بات لاکھوں ذہنوں کو پراگندہ کر دیتی ہے ۔ وزیر اعظم کو بلا واسطہ سنتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ’’ بے رحم ‘‘ وقت نے انہیں کئی تلخ تجربات سے آشنا کر دیا ہے ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ہلکے پھلکے مزاح سے بھی کام لیا مگر ’’ جسمانی زبان ‘‘ ( BODY LANGUAGE ) سے سنجیدگی اور درد دل ٹپک رہا تھا ۔ حالات کے جبر اور گھمبیر ملکی صورت حال کے پیش نظر ان کو کہنا پڑا کہ کسی دور میں وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج ہوتی تھی ، اب یہ ذمہ داری کانٹوں کے بستر پر سونے کے مترادف ہے ۔ وزیر اعظم نے بارہا یہ بات کہی کہ عدلیہ کی آزادی ہو یا ہمارا اس مقام تک پہنچنا ( مسلم لیگ نواز کے اقتدار کی طرف اشارہ ) ذرائع ابلاغ کے جاندار کردار کے باعث ممکن ہو سکا ۔ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ خوگر حمد سے تھوڑا سے گِلا بھی سن لے ، وزیر اعظم نے بھی نہایت خوبصورت انداز میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کہا کہ اقتدار کے موجودہ دور میں ہم سے ذرائع ابلاغ کو معمولی شکایت ہو سکتی ہے ، مگر ہم نے ذرائع ابلاغ کے کسی ادارے پر پابندی لگائی اور نہ اشتہارات کے ہتکھنڈے کو استعمال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ذرائع ابلاغ کے خلاف کسی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں نہ کسی کو انتقام کا نشانہ بنائیں گے ۔ البتہ اخباری مالکان اور مدیران کی انجمنیں خود اس بات کا جائزہ لیں کہ جنرل مشرف نے جب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا تو ذرائع ابلاغ سے وابستہ بعض لوگوں نے ’’ کس کردار ‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ صرف مشرف دور کا کیا گلا کیا جائے ، اخباری صنعت سے وابستہ دانشور آئین و قانون کی بات تو کرتے ہیں مگر دھرنے کے نام پر جن لوگوں نے ایوان صدر اور پارلیمان کی بے توقیری کی اورجو لوگ دن میں دس مرتبہ نواز شریف کے استعفیٰ کے بات کرتے تھے ان سے متعلق ذرائع ابلاغ کے بعض اداروں اور افراد نے کیا پالیسی اختیار کی ؟ اہل قلم ریاست کا چوتھا ستون ہیں ، بعض اہل قلم نے آئین شکن لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا ۔ حکومت نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی مگر کیا خود احتسابی اور اخباری تنظیموں کا فرض نہیں کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی تحریک کریں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صحت خبر کی بات ہو یا آئین شکن اہل قلم کا تذکرہ ، بات وزیر اعظم کریں یا کوئی عام شہری ہم اہل قلم ، اخباری اداروں اور بالخصوص اخباری انجمنوں کو اس ’’ مادر پدر آزادی ‘‘ کو کہیں روک ضرور لگانی چاہیے ۔ ریاست اور معاشرے نے اہل قلم کو کچھ حقوق دئیے ہیں تو اُس نے اُن پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کیں ہیں ۔ ہم اس موقع پر جناب وزیر اعظم سے گزارش کریں گے کہ وہ ساری توقع اخباری انجمنوں سے وابستہ نہ کریں سرکار ، قوم کے کروڑوں روپے سالانہ پریس کونسل آف پاکستان اور دیگر اداروں پر خرچ کرتی ہے ۔ سالہا سال گزرنے کے باوجود پریس کونسل آف پاکستان کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی ۔ کہا جاتا ہے کہ جو جماعت برسراقتدار ہوتی ہے اس سے وابستہ یا ہمدردیاں رکھنے والوں کو پریس کونسل کا سربراہ بنا کے ’’ نوازا ‘‘ جاتا ہے ۔حکومت کو برطانیہ ، بھارت اور دیگر ممالک کی پریس کونسلز کی مثال سامنے رکھتے ہوئے فوری طور پر پاکستان پریس کونسل کو فعال بنانا چاہیے ۔ پیمرا میں بیٹھے ’’ صاحبان ‘‘ کی بصیرت و بصارت کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے جن کی غفلت سے بھارتی چیف آف آرمی سٹاف کی طویل پریس کانفرنس بھی براہ راست ہمارے چینلز پر نشر ہو جاتی ہے ۔ یہ کارنامہ بھی پیمرا ہی کا ہے کہ ایک سیاستدان کا انٹرویو نجی چینل پر نشر ہوتا ہے ۔ جس میں وہ ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کے سربراہ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے تحریری طور پر انہیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو بم دھماکے کے ذریعے قتل کرنے کا کہا تھا ۔ ایسی باتوں کے نشر ہونے سے کیا ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہوا ہے ؟ جناب وزیر اعظم آپ کے درد دل کی قدر کرتے ہوئے آپ سے انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ ’’ بے اْختیار ‘‘ کے درد دل کی تو کوئی منطق ہے ، با اثر ، با اختیار اور جس کو منتخب کر کے قوم نے سب سے بڑی ذمہ داری پر بٹھایا ہے اسے اقدامات کرنا ہوتے ہیں ۔ آپ نے غیبت سے اجتناب کا عہد کر کے اپنی آخرت کے لئے بہترین اجر کا اہتمام کیا ۔ مگر جناب والا آپ ملک میں بددیانتی کے خاتمے اور انصاف کی ترویج کے لئے پختہ عہد اور اقدامات کر کے اﷲ کی وسیع و عریض جنتوں کے وارث بن سکتے ہیں ۔ میاں صاحب ہم تو اﷲ کو ماننے والے ، آخرت میں اپنے ہر کئے کی جزا و سزا پر یقین رکھنے والے ہیں ، اﷲ کی اس زمین پر بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کے کروڑہا شہری اس کی ذات پر یقین نہیں رکھتے ( NON BELIEVERS ) ، مگر اپنے معاشروں میں عدل و انصاف قائم کر کے انہوں نے اپنی مملکتوں کو دنیا میں جنت بنا دیا ہے ۔
پھر ہم اہل ایمان کسمپرسی کا شکار کیوں ہیں ؟
Load/Hide Comments