15 امدادی اہلکاروں کا قتل: ویڈیو شواہد کے بعد اسرائیلی فوج نے غلطی تسلیم کرلی

مقبوضہ بیت المقدس (صباح نیوز)اسرائیلی فوج نے شہید امدادی کارکن کے موبائل سے بنائی گئی ویڈیو سامنے آنے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ 23 مارچ کو جنوبی غزہ میں 15 امدادی اہلکاروں کی شہادت اس کے فوجیوں کی غلطی کا نتیجہ تھی۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی آر سی ایس) کی ایمبولینسوں کے قافلے، اقوام متحدہ کی ایک کار اور غزہ کے محکمہ شہری دفاع سے آنے والے ایک فائر ٹرک کو رفاہ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیل نے ابتدائی طور پر دعوی کیا تھا کہ فوجیوں نے اس لیے فائرنگ کی کیونکہ قافلہ اندھیرے میں ہیڈ لائٹس یا نمایاں روشنیوں کے بغیر مشکوک انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ گاڑیوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے اسرائیلی فوج کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔شہید طبی عملے میں سے ایک کی جانب سے بنائی گئی موبائل فون فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زخمیوں کی مدد کے لیے طلب کی جانے والی گاڑیوں کی لائٹس جل رہی تھیں۔اسرائیلی فوج کا اصرار ہے کہ طبی عملے کے کم از کم 6 ارکان کا تعلق حماس سے تھا لیکن انہوں نے اب تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا، اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ صہیونی فوجیوں نے فائرنگ کی تو طبی عملے کے ارکان غیر مسلح تھے۔

نیویارک ٹائمز کی جانب سے شیئر کی جانے والی اس موبائل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑیاں سڑک پر رواں دواں تھیں کہ علی الصبح کوئی انتباہ جاری کیے بغیر ان پر فائرنگ کردی گئی۔5 منٹ سے زائد دورانیے کی ویڈیو فوٹیج میں طبی عملے کے رکن رفعت رضوان کو اپنی شہادت سے قبل کلمے کا ورد اور دعا کرتے ہوئے سناجاسکتا ہے جس کے بعد گاڑیوں کی جانب بڑھتے اسرائیلی فوجیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔اسرائیلی فوج کے ایک عہدیدار نے ہفتے کی شام صحافیوں کو بتایا کہ فوجیوں نے اس سے قبل حماس کے 3 ارکان پر مشتمل ایک کار پر فائرنگ کی تھی۔عہدیدار نے بتایا کہ جب ایمبولینسیں حماس کی گاڑی کے پاس رکی تو فوجیوں نے محسوس کیا کہ انہیں خطرہ ہے اور انہوں نے فائرنگ شروع کردی، حالانکہ کوئی ثبوت نہیں تھا کہ ہنگامی ٹیم میں سے کوئی بھی مسلح تھا۔اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اس کا پہلا بیان غلط تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ امدادی قافلے کی گاڑیاں بغیر لائٹ کے آئی تھیں،

اس بیان کو ملوث فوجیوں سے منسوب کیا گیا تھا۔ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں پر واضح طور پر نشان آوایزاں تھا اور طبی عملے نے نمایاں ہونے والی وردیاں پہن رکھی تھیں۔اسرائیلی عہدیدار نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں بتایا کہ فوجیوں نے 15 رضاکاروں کی لاشوں کو جنگلی جانوروں سے بچانے کے لیے ریت میں دفن کیا تھا، انہوں نے دعوی کیا کہ سڑک کو صاف کرنے کے لیے اگلے دن گاڑیوں کو منتقل اور لاشوں کو دفن کیا گیا۔واقعے کے ایک ہفتہ بعد تک ان کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا کیونکہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کو علاقے تک محفوظ رسائی نہیں دی گئی تھی۔جب امدادی ٹیم کو لاشیں ملیں تو انہیں رفعت رضوان کا موبائل فون بھی ملا جس میں واقعے کی فوٹیج موجود تھی۔اسرائیلی فوجی عہدیدار نے اس بات کی تردید کی کہ مرنے سے قبل کسی بھی طبی اہلکار کو ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں اور کہا کہ انہیں قریب سے گولیاں نہیں ماری گئی تھیں، جیسا کہ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا تھا۔

رواں ہفتے کے اوائل میں زندہ بچ جانے والے طبی عملے کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایمبولینسوں کی لائٹس جلی ہوئی تھیں اور انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ ان کے ساتھیوں کا کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق تھا۔آئی ڈی ایف نے واقعے کی مکمل جانچ کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ واقعات کی ترتیب اور صورتحال سے نمٹنے کے طریقہ کار کو سمجھیں گے۔ہلال احمر اور کئی دیگر بین الاقوامی تنظیمیں واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔اسرائیل نے 18 مارچ کو جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام اور مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد غزہ پر فضائی اور زمینی حملے شروع کیے تھے۔حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 18 مارچ کے بعد سے اب تک غزہ میں 1200 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے تقریبا 1200 اسرائیلیوں کی ہلاکت اور 251 کو یرغمال بنائے جانے کے بعد حماس کو ختم کرنے کی مہم شروع کی تھی، غزہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 50 ہزار 600 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں