نئی دہلی (صباح نیوز)ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے لائے گئے وقف قانون 2025 کو چیلنج کرتے ہوئے اب تک کم از کم آٹھ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی جا چکی ہیں۔ اس متنازع بل پر ہفتے کو صدر مرمو نے دستخط کر دیے تھے۔ جرمن ٹی وی کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ میں پیر کے روز تک کم از کم آٹھ درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں، جن میں وقف ترمیمی ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ان میں عدالت عظمی سے اس متنازع قانون پر فوری روک لگانے اور دیگر رعایتوں کی درخواست کی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواستوں میں بنیادی طور پر استدلال یہ ہے کہ یہ نیا قانون، وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 سپریم کورٹ کے ہی ایک سابقہ فیصلے ”ایک بار وقف، تو ہمیشہ کے لیے وقف کی خلاف ورزی ہے اور اس نئے قانون کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو وقف کی زمینوں سے محروم کیا جا سکے اور ان زمینوں کو نجی یا سرکاری املاک میں تبدیل کرنے کو کوشش کی جائے۔
جن تنظیموں اور افراد نے یہ درخواستیں دائر کی ہیں، ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علما ہند، لوک سبھا کے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، این جی او ایسوسی ایشن فار سول رائٹس (اے پی سی آر) اور عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان شامل ہیں۔مسلم تنظیموں نے اس قانون کو من مانی اور امتیاز و تفریق پر مبنی قرار دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیمات نہ صرف دستور ہند کے فراہم کردہ بنیادی حقوق کی دفعات سے متصادم ہے بلکہ ان ترمیمات سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت مسلم اقلیت کو وقف کے انتظام و انصرام سے بے دخل کر کے وقفت املاک کا سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ اس قانون میں ”مسلمانوں کو مذہبی اور فلاحی کاموں کے لیے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کے بنیادی حق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقف پر پانچ سال تک باعمل مسلمان ہونے کی تحدید نہ صرف ملکی قانون اور آئین کے خلاف ہے بلکہ یہ اسلامی شریعت سے بھی متصادم ہے۔
درخواست گزاروں نے نئے وقف قانون میں ‘وقف بائی یوزر یا ”صارف کے ذریعے وقف کے تصور کو ختم کرنے کو سب سے اہم نکتہ بنایا ہے،حالانکہ اوقاف سے متعلق کیسز میں اسے ایک عرصے سے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور بالخصوص بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس کا ذکر کیا تھا۔درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ‘وقف بائی یوزر کو ختم کر دینے سے بھارت میں وقف کی ہزاروں عمارتوں اور جائیدادوں کے خلاف درخواستوں کا سیلاب آ جائے گا کیونکہ صدیوں پہلے وقف کی گئی بیشتر جائیدادوں بشمول مساجد، قبرستانوں، درگاہوں کے پاس کوئی رسمی قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے انہیں زبانی وقف کیا تھا اور وہ صدیوں سے وقف جائیداد کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔نئے قانون کے خلاف درخواستوں میں مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں، دونوں کی تشکیل نو کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ نئے قانون میں کونسل اور بورڈوں میں مسلم اراکین کی اکثریت کو یا تو کم کر دیا گیا ہے یا بالکل ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ان درخواستوں میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قانون کسی مذہبی برادری کو اپنے مذہبی اور فلاحی کاموں کے لیے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کے بنیادی آئینی حق سے محروم کر دے گا۔
اسی طرح بورڈوں میں مسلم سی ای او کی لازمیت کو ختم کرنے کے خلاف بھی چیلنج کیا گیا ہے۔اقلیتی امور کے وزیر کرن ریجیجو کا کہنا تھا، ”جو لوگ (بل) کو نہیں سمجھتے تھے وہ ناخوش ہیں۔ لیکن جو لوگ ہمارے ذریعے بل میں کی جانے والی ترامیم کو سمجھتے ہیں، وہ دیکھ لیں گے کہ اس سے اگلے دو تین سال میں غریب، مسلم، خواتین اور لوگوں کو کتنا فائدہ ہو گا۔دریں اثنا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان الیاس نے کہا کہ انہوں نے عدالت عظمی سے درخواست کی ہے کہ دستوری حقوق کی محافظ ہونے کے حوالے سے وہ ان متنازع ترمیمات کی منسوخی کا فیصلہ دے کر بھارتی آئین کی عظمت کو بحال کرے اور مسلم اقلیت کے حقوق کو پامال ہونے سے روکے