قومی اسمبلی اجلاس ،اپوزیشن ارکان کا ایوان میں احتجاج اور شور شرابہ،اسپیکرکے ساتھ تلخ کلامی،ایوان سے واک آؤٹ

اسلام آباد (صباح نیوز) قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں احتجاج اور شور شرابہ کیا، ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے اور تلخ کلامی کی تاہم ایازصادق نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت پھر بھی نہیں دی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا،

اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی والدہ اور دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کے لیے مغفرت کی دعا کروائی گئی، مولانا عبدالغفور حیدری نے دعا کرائی۔ وقفہ سوالات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی سلیم الرحمن نے کہا کہ سوات کے غریب لوگوں پر مردان میں حملہ ہوا، یہ پہلی دفعہ ہوا کہ اپنے ہی لوگوں پر حملہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وزرا نے ان لوگوں کو دہشتگرد قرار دینے کا ڈرامہ کیا، میں اس واقعے کی مذمت کرنا چاہتا ہوں، حکومت کو غلطی مان معافی مانگنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی مجاہد علی نے ایوان میں کہا کہ مردان حملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے، حکومت ان شہدا کے لیے پیکج کا اعلان کرے، بہت بے دردی کے ساتھ ان لوگوں کو شہید کیا گیا، ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے ایوان میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ مردان ڈرون مکمل شواہد کے ساتھ کیا گیا، اس ڈرون حملے کے دوران کئی دہشتگردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اپوزیشن لیڈر نے وزیر مملکت داخلہ کی تقریر کے دوران نکتہ اعتراض مانگ لیا تاہم، اسپیکر قومی اسمبلی کا فلور دینے سے انکار کردیا جس پر اپوزیشن لیڈر سمیت اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ طلال چوہدری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تنخواہ پوچھنے والے کسی سے پوچھ لیں کہ کس کی کتنی قربانیاں ہیں، 18ویں ترمیم کے بعد امن و امان کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ میاں نواز شریف کے دور میں کردیا گیا، مگر افسوس پی ٹی آئی نے ان دہشت گردوں کو دوبارہ بسایا، بتایا جائے خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کتنے اضلاع میں بنائی گئی، بتایا جائے کتنے سیف سٹی کیمرے کے پی میں لگائے گئے، پشاور میں 100 سیف سٹی کیمرے تک نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان میں واضح ہے کہ صوبے امن و امان کے ذمہ دار ہیں،یہ جعفر ایکسپریس کی طرح مردان کے کاٹلنگ حملے کو بھی سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ وزیر مملکت داخلہ نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ سرحدوں سے دہشتگردی آتی ہے مگر جو شہروں میں بسائے گئے ان کے بارے میں کیوں نہیں بولتے، یہ پہلا ملک پاکستان ہے جہاں ایک جماعت دہشت گردوں کا ساتھ دیتی ہے، ان لوگوں سے کیسے بات کی جاسکتی ہے جن کے ہاتھ میں بندوق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تھا تو یہ کیوں نہیں آئے ، چیئرمین پی ٹی آئی حکومت و اپوزیشن میں کبھی سلامتی کمیٹی اجلاس میں نہ آئے، افغانستان حملہ کرے یا انڈیا ، کبھی بانی چیئرمین نہیں آئے انہیں اپنی انا سب سے مقدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کیوں کارکردگی کی بات نہیں کرتی، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کیوں نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرتی، ان کی معاونت کبھی بھی دہشت گردوں کے خاتمے میں نہیں رہی، ان کی معاونت ہمیشہ دہشت گرد بسانے میں رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے صدر اور رکن قومی اسمبلی جنید اکبر خان نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر سیکیورٹی اداروں پر لگاتے ہیں، ادارے ہماری حفاظت کے بجائے کسی اور کام میں پڑ گئے ہیں، ان کا کام حکومتیں بنانا اور گرانا نہیں ہے، ان کا کام زراعت، اسٹاک ایکسچینج اور دیگر کام نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان ہی کیوں آتے ہیں، کہیں اور کیوں نہیں جاتے، کیا ہم سیکیورٹی اداروں پر اربوں کھربوں روپے نہیں لگاتے، اگر ہم پارلیمان میں یہ بات نہیں کرسکتے تو کہاں کریں گے، آپ ہمارے باپ دادا نہیں ہیں میں تنقید کروں گا ۔انہوں نے کہا کہ میں مضبوط ادارے چاہتا ہوں لیکن ادارے اپنا کام کریں، ہم بات کرتے ہیں تو ایف آئی آر ہو جاتی ہے، ہمارے واش رومز اور بیڈ رومز سے نکلو اپنا کام کرو، اپنا کام کرو پاکستان بدل جائے گا۔ اسپیکر ایاز صادق نے جنید اکبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بڑی اچھی باتیں کیں، کاش آپ نیشنل سیکیورٹی میٹنگ میں شرکت کرتے، آپ کو اس میٹنگ آنا چاہیے تھا، وہ میٹنگ حکومت اور اپوزیشن کی نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں آپ امن و امان کے حوالے سے بات کر سکتے تھے، وہ حکومت یا اپوزیشن کی نہیں نیشنل سیکیورٹی میٹنگ تھی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالات پر بریفنگ تھی آپ کو سننا چاہیے تھا، ساری جماعتوں کو پاکستان کی خاطر اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ جناب اسپیکر آپ سے اور اسمبلی سٹاف سے گلہ ہے، میں نے سوالات جمع کیے لیکن ابھی وقفہ سوالات پر نہیں آئے، کیا مجھے بلیک لسٹ کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے فورسز کو ملنے والی گاڑیوں اور پلاٹس کے حوالے سے سوال کیا تھا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ کو کل تک تفصیلی جواب مل جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر کے اصرار کے باوجود اسپیکر نے عمر ایوب کو فلور نہ دیا جس پر عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، محمود اچکزئی سمیت دیگر اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے اکٹھے ہو گئے۔ایاز صادق کا کہنا تھا کہ میں فلور اس طرح نہیں دے سکتا،

اسپیکر قومی اسمبلی اور اپوزیشن رکن علی محمد خان کے درمیان ڈائس کے سامنے مذاکرات ہوئے۔ اپوزیشن ارکان نے نکتہ اعتراض کا مطالبہ کیا تاہم، سپیکر قومی اسمبلی کا اپوزیشن ارکان کو نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری، قیصر شیخ اور آغا رفیع اللہ اپوزیشن کے پاس پہنچ گئے جبکہ اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی اور ایوان میں شور شرابہ کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان بھی ہمارا ہے، اگر کام متفق ہو کر کریں تو مسائل حل ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہمارے سامنے ہے، کالا باغ ڈیم منصوبے سے نفرتیں پھیلانے کی کوشش کی، متنازع منصوبوں سے اثرات برے آئیں گے، اگر کوئی منصوبے ہیں تو اتفاق رائے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں،بنیادی چیز یہ ملک ہے، اپوزیشن کی بات بھی ٹھنڈے دل سے سنسنی چاہیے، جس منصوبے کو بحث مباحثے میں الجھایا اس کی وجہ سے مشکلات ہوئیں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاق سے میسج جانا چاہیے کہ تمام اکائیاں برابر ہیں، جب تک تلخیاں اور نفرتیں نہیں ختم کریں گے آگے نہیں بڑھ سکتے۔