ممنوعہ جگہ پر داخل ہونا بھی آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی میں آتا ہے، جسٹس نعیم اختر افغان

اسلام آباد(صباح نیوز)فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل سے متعلق دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ممنوعہ جگہ پر داخل ہونا بھی آفیشل سیکرٹس ایکٹ خلاف ورزی میں آتا ہے، کنٹونمنٹ کے علاقوں میں زیادہ ترشہروں میں کمرشل سینٹرز بن گئے ہیں، نجی رہائش گاہیں بھی بن گئی ہیں، اگر مجھے ایک دن جانے سے روک دیا جائے توکیا ہوگا، یہ 2-d-2کا پہلا کیس ہے، کنٹونمٹ کے علاقوں میں بے شمار منصوبے شاپنگ مال اور کھانے کے پوائنٹس بنادیئے ہیں ، شہریوں کوکنٹونمنٹ کے علاقوں میں داخلے کے لئے پاس بناکردیتے ہیں اگر مجھے پاس نہیں دیتے اور میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں تو پھر میرا فوجی ٹرائل ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں سوال یہ ہے کہ کیاآئین کے آرٹیکل 175سے ہٹ کر آئین اجازت دیتا ہے کہ کوئی ایسا فورم ہے جس میں سویلینز کاٹرائل ہوسکتا ہے۔کیا وکیل بتائیں گے کہ ڈیفنس آف پاکستان کیا ہے۔ ملک کے دفاع کی آئین میں تعریف نہیں دی گئی یہ ڈکشنری سے دیکھنی پڑے گی۔ کیاآئین کے آرٹیکل 175کے علاوہ کوئی عدالت بن سکتی ہے، یہ عدالت نہیں بلکہ کورٹس مارشل ہیں یہ ہم سب مانتے ہیں۔ کیا فوجی عدالتوں میں زیادہ سزائیں دی جاتی ہیں ، تعزیرات پاکستان 1860سے موجود ہے ، آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923سے موجود ہے دونوں میں یہ چیزں جرم ہیں اور ان کی سزائیں بھی ہیں، عام عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں چلتے۔ہمیں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث خواب میں بھی نظرآتے ہیں۔

جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، وہاں تو ممنوعہ علاقہ نوٹیفائی نہیں ہے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیوں ایک مستقل عدالت کی سروس نہیں لینا چاہتے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال پرمشتمل 7رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے دائر 38نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے اپنے جواب الجواب میں دلائل کاسلسلہ جاری رکھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیاآئین کے آرٹیکل 175سے ہٹ کر آئین اجازت دیتا ہے کہ کوئی ایسا فورم ہے جس میں سویلینز کاٹرائل ہوسکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں اورجسٹس نعیم اخترافغان پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ایف علی کیس میں مکمل بات نہیں کی گئی اورموجودہ کیس فرسٹ امپریشن کاکیس ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا وکیل بتائیں گے کہ ڈیفنس آف پاکستان کیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں، دونوں کے حوالہ سے بتادیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ یہ وہ جرائم ہیں جو جنگ کی تیاری کومتاثر کرتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ملک کے دفاع کی آئین میں تعریف نہیں دی گئی یہ ڈکشنری سے دیکھنی پڑے گی۔

جسٹس نعیم اختر افغان کاکہنا تھا کہ ممنوعہ جگہ پر داخل ہونا بھی آفیشل سیکرٹس ایکٹ خلاف ورزی میں آتا ہے، کنٹونمنٹ کے علاقوں میں زیادہ ترشہروں میں کمرشل سینٹرز بن گئے ہیں، نجی رہائش گاہیں بھی بن گئی ہیں، اگر مجھے ایک دن جانے سے روک دیا جائے توکیا ہوگا، یہ 2-d-2کا پہلا کیس ہے، کنٹونمٹ کے علاقوں میں بے شمار منصوبے شاپنگ مال اور کھانے کے پوائنٹس بنادیئے ہیں ، شہریوں کوکنٹونمنٹ کے علاقوں میں داخلے کے لئے پاس بناکردیتے ہیں اگر مجھے پاس نہیں دیتے اور میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں تو پھر میرا فوجی ٹرائل ہوگا،کی ترمیم کے بعد ٹو ڈی ٹو کا کوئی کیس نہیں آیا یہ پہلا کیس ہے جو ہم سن رہے ہیں۔جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ لاہور، کوئٹہ، گوجرانوالہ میں کینٹ کے علاقے ہیں، ایسے میں تو سویلین انڈر تھریٹ ہونگے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرزبردستی داخل ہونے کی کوشش کریں گے توفوجی ٹرائل ہوگا۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ جہاں جہاں فوجی تعینات ہیں وہاں روکا جاتا ہے دیگر جگہوں پر نہیں روکاجاتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سڑکوں پرتونہیں روکاجائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کوئٹہ کینٹ میں تو آئے روز اس نوعیت کے جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ شاپنگ مالز کو ممنوعہ علاقہ قرار نہیں دیا جاتا، کراچی میں 6 سے 7 کینٹ ایریاز ہیں، وہاں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو بھی ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہو۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مجھے ایک مرتبہ اجازت نامہ نہ ہونے کے سبب کینٹ ایریا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، وہاں تو ممنوعہ علاقہ نوٹیفائی نہیں ہے۔جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ فوجی تنصیبات کے حوالہ سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیاجاتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ گٹھ جوڑ دفاع پاکستان کے حوالہ سے ہے، دفاع میں سپریم کورٹ، پارلیمنٹ، ریلوے اور اآرمی سب شامل ہیں۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ملک کادفاع مسلح افواج کے حوالہ سے ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا فوجی عدالتوں میں زیادہ سزائیں دی جاتی ہیں ، تعزیرات پاکستان 1860سے موجود ہے ، آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923سے موجود ہے دونوں میں یہ چیزں جرم ہیں اور ان کی سزائیں بھی ہیں ، عام عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں چلتے۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کئی ایسے لوگ ہیں جن کو جیل سے باہر نہیں لے جاسکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ملزمان کاجیل ٹرائل بھی ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فوجی قانون ٹھیک ہے اسے پارلیمنٹ نے بنایا ہے، جب سے آئین میں آرٹیکل 10-Aآیا پہلے والی چیزیں ختم ہو گئیں، فوجی ٹرائل کیلئے آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے، فوجی اہلکاروں کے لئے بھی آزاد فورم چاہیئے۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہم سب کوآزاد فورم چاہیئے، آج تک کسی فیصلے میں بھی نہیں کہا گیا کہ سویلینز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاآئین کے آرٹیکل 175کے علاوہ کوئی عدالت بن سکتی ہے، یہ عدالت نہیں بلکہ کورٹس مارشل ہیں یہ ہم سب مانتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے سوالوں کاجس طرح چاہیں جواب دیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہم صرف انہیں جرائم کی بات کررہے ہیں جو دوآرڈینیننسز کے زریعہ 1967میں آرمی ایکٹ میں شامل کئے گئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیوں ایک مستقل عدالت کی سروس نہیں لینا چاہتے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اس حوالہ سے پارلیمنٹ کوسوچنا چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس فیصلے میں کہا گیا کہ نہ صرف سویلینز کوبنیادی حقوق حاصل ہیں بلکہ دے بھی دیئے گئے ہیں، کیا پھر ہم ایف بی علی کیس میں جائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 10-Aپرآجائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں مداخلت کی کیونکہ آئین اجازت دیتا تھا۔ جسٹس امین الدین خان کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کتنا باقی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے دلائل ختم ہوچکے ہیں۔اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سوموار کودلائل مکمل کرلوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے دلائل نوٹس شدہ ہیں، ہمیں تمام دلائل یاد ہوگئے ہیں، مزید بھی ہم پڑھ لیں گے، آپ ہمیں خواب میں بھی نظرآتے ہیں۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت منگل 15اپریل دن ساڑھے 11بجے تک سماعت ملتوی کردی۔