دہشتگردی کو کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں, جسٹس جمال خان مندوخیل

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کو کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔آرمی ایکٹ مخصوص کلاس کے لوگوں کے لئے بنا تھا، ایف بی علی کیس کافیصلہ کہتا ہے کہ سویلینز کوبنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔ آئین کے آرٹیکل 175کے علاوہ کون ساآئین کاآرٹیکل ہے جس کے تحت کوئی عدالت قائم ہوسکتی ہے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے،کسی کوایف آئی آرکے اندراج کے بغیر گرفتارنہیں کیاجاسکتا۔

جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے، گرفتارکرنے کے بعد کیا پروسیجر اختیار کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے دائر 38نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے جواب الجواب میں دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کچھ عدالتی فیصلوں پر دلائل دینا چاہتا ہوں، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سعید الزماں صدیقی سمیت دیگر کے کچھ فیصلے ہیں۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سویلین کسی فوجی تنصیب کو نقصان پہنچائے، ٹینک چوری کرے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے، سوال ٹرائل کا ہے۔وکیل خواجہ حارث نے مئوقف اپنایا کہ قانون بنانے والوں نے طے کرنا ہے ٹرائل کہاں ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے، تفتیش کون کرتا ہے، طریقہ کار کیا ہوگا، یہ جاننا چاہتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہان تھا کہ کورٹ مارشل کے علاوہ سیکشن dکے تحت جرم کرنے پر آرمی ایکٹ کی کون کون سی دفعات لگیں گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا اگرتلہ سازش بھی ملک کی سیکیورٹی کوخطرہ تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سویلین کاہوتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اپنے افسران کی بات ماننی چاہیئے، تشریح کرتے ہوئے عدالتیں حتی المقدور کرشش کرتی ہیں کہ قانون کوبچایا جائے۔ وکیل وزارت دفاع نے مئوقف اختیار کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت آرمڈ فورسز خود بھی سویلین کی گرفتاری کر سکتی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے،کسی کوایف آئی آرکے اندراج کے بغیر گرفتارنہیں کیاجاسکتا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے، گرفتارکرنے کے بعد کیا پروسیجر اختیار کیا جائے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آئین پاکستان نے بذات خود کورٹ مارشل کیلئے یونیک اختیار سماعت دے رکھا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں، پھر یہ بتا دیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین میں ایک ہی آرٹیکل 175ہے جس کے تحت عدالت بناسکتے ہیں، کیا فوجی عدالتیں عدالت کی تعریف میں آتی ہیں۔ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس بینچ نے دیکھنا ہے کہ آرٹیکل 175بیچ میں آتا ہے کہ نہیں کیونکہ ہمارے سامنے موجود فیصلہ میں بھی اس حوالہ سے بات نہیں کی گئی۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آئیں میں استثنیٰ دیا گیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کورٹ مارشل کاروائی ہے یاعدالت ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے رولز خودبناتا ہے تاہم وفاقی حکومت انہیں نوٹیفائی کرتی ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کورٹ مارشل آئین کے آرٹیکل 203کے ماتحت نہیں، 5رکنی بینچ نے کورٹ مارشل کوعدالت تسلیم کیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175کے علاوہ کون ساآئین کاآرٹیکل ہے جس کے تحت کوئی عدالت قائم ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 1688سے آرمی ایکٹ کاآغاز ہوا اورہم تک 1911میں پہنچا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سویلینز کواس وجہ سے آرمی ایکٹ کے تحت لایا گیا کہ انہوں نے کوئی کام کیا۔ بینچ نے کیس کی مزید سماعت آج (منگل)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ خواجہ حارث نے بینچ سے استفسارکیا کہ کیاسماعت صبح ساڑھے 9بجے شروع ہوگی یادن ساڑھے11بجے۔اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ بینچ میں شامل کچھ ججز دیگر ریگولر بینچز کابھی حصہ ہیں اس لئے سماعت دن ساڑھے 11بجے ہی شروع ہوگی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد آج (منگل)کے روز بھی اپنے جواب الجواب کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔