متنازعہ وقف ترمیمی بل کی منظوری کیخلاف بھارت بھر میں شدید احتجاج،مسلمان جمعہ نماز کے بعد سڑکوں پر نکل آئے

نئی دہلی(صباح نیوز)متنازعہ وقف ترمیمی بل کی منظوری کیخلاف جمعہ کوبھارت بھر میں مسلمانوں نے نماز جمعہ کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ۔ نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء  نے آل انڈیا سٹوڈنٹس یونین ایسوسی ایشن  اور دیگر طلباء تنظیموں کی قیادت میں بل کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بل کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقلیتوں کے حقوق پر صریح حملہ قرار دیا۔ گجرات کے احمد آباد میں ہزاروں لوگ تاریخی جامع مسجد اور سیدی سید مسجد میں جمع ہوئے،

انہوں نے نعرے لگائے اور اہم سڑکوں کو بلاک کر دیا۔ پولیس نے مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں 50 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ چنئی (تمل ناڈو) اور کوئمبٹور میں بھی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جہاں تملگا وتری کزگم کے ارکان اور مسلم تنظیمیں بل کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔ بنگلورو (کرناٹک) میں مظاہرین نے بل کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالب ہ کیا۔ بہار کے جموئی ضلع میں،ہزاروں لوگ نماز جمعہ کے بعد راجہ نگر گوسیا مسجد میں جمع ہوئے، انہوں نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی اور بھارتی وزراء بالخصوص چراغ پاسوان کے خلاف بل کی حمایت کرنے پر نعرے لگائے۔ رانچی (جھارکھنڈ) اور کولکتہ (مغربی بنگال) میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ رانچی میں جمعے کی نماز کے بعد ایکرا مسجد کے باہر جمع ہونے والے ہزاروں مسلمان، بینرز اٹھائے ہوئے اور اپنی سخت مخالفت کا اظہار کر رہے تھے۔ مظاہرین نے بل کو اپنے آئینی حقوق پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ کولکتہ کے پارک سرکس کراسنگ پر، سینکڑوں مسلمان سڑکوں پر نکل آئے، ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی اس بل کو ملک کو تقسیم کرنے اور قانونی ترامیم کی آڑ میں مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ بل بی جے پی کے لیے اپنے تقسیمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک آلہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دریں اثنا، حکام نے اترپردیش کو ہائی الرٹ پر رکھا، لکھنؤ، سنبھل، بہرائچ، مراد آباد، مظفر نگر، سہارنپور اور نوئیڈا سمیت بڑے شہروں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی۔ لکھنؤ میںعوامی اجتماعات پر نظر رکھنے کے لیے ڈرون اور سی سی ٹی وی کی نگرانی کو تیز کر دیا گیا۔یاد رہے کہ جمعہ کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا نے نے متنازعہ وقف ترمیمی بل کی منظوری دی ۔

اب صدر کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا، حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کے زبردست ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ہندوستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کی کارروائی شروع ہوتے ہی کانگریس سمیت اپوزیشن کے کچھ ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اور نعرے بازی شروع کر دی اور کچھ ارکان ایوان کے وسط میں آ گئے۔ دوسری طرف حکمراں جماعت کے کچھ ارکان بشمول بی جے پی کے نشی کانت دوبے اپنی جگہوں پر کھڑے ہوگئے اور سونیا گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے بازی شروع کردی۔اسپیکر اوم برلا نے وقفہ سوال چلانے کی کوشش کی لیکن دونوں طرف سے نعرے بازی تیز ہوگئی۔ اوم برلا نے لوگوں سے اپنی نشستوں پر جانے کی اپیل کی اور کہا کہ سوال کا وقت ایک اہم وقت ہوتا ہے۔ یہ ایوان کے وقار کے مطابق نہیں ہے۔ اسپیکر کی اپیل کے باوجو ہنگامہ نہیں رکا تو ایوان کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔ دوسری طرف ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑنے جمعہ کو ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ایوان کی کارروائی پہلے دوپہر بارہ بجے تک اور پھر ایک بجے تک ملتوی کر دی، جس کی وجہ سے وقفہ صفر اور وقفہ سوال نہیں ہو سکا۔صبح کے التوا کے بعد بارہ بجے جب ایوان دوبارہ شروع ہوا تو حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا۔ ایوان میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر پرمود تیواری نے وقف ترمیمی بل کے حوالے سے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن چیئرمین نے کہا کہ ایوان میں پوائنٹ آف آرڈر نہیں ہے اور وہ کارروائی ملتوی کر رہے ہیں۔

ایوان میں ضروری قانون سازی کے دستاویزات پیش کیے جانے کے بعد، بی جے پی کے لکشمی کانت باجپئی نے مغربی بنگال میں 25,000 اساتذہ کی تقرریوں کو منسوخ کرنے کے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا مسئلہ اٹھایا۔اس پر حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان نوک جھونک ہوئی جس کو دیکھتے ہوئے چیئرمین نے کارروائی ملتوی کر دی۔قابل ذکر ہے کہ وقف ترمیمی بل پر ہندوستان میں مسلم تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جاتا رہا ہے حکومت اور مسلم تنظیموں کا اندازہ ہے کہ وقف بورڈ کے پاس تقریبا 8 لاکھ 51 ہزار 5 سو 35 جائیدادیں اور 9 لاکھ ایکڑ اراضی ہے جس سے وہ ہندوستان کے سرِ فہرست تین بڑے زمینداروں میں شامل ہوتا ہے۔وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کے پیش کردہ وقف ترمیمی بل میں مرکزی وقف کونسل اور وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور اس سے حکومت کو متنازعہ وقف املاک کی ملکیت کا تعین کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ یہ قانون مسلم برادری اور مودی حکومت کے درمیان کشیدگی کے دوران سامنے آیا ہے۔ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وقف ترمیمی بل کو منظوری مل گئی ہے