اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ خاندانی معاملات میں حقائق کے تعین کے حوالہ سے ایپلٹ کورٹ اور زیادہ سے زیادہ ہائی کورٹ تک آئیںاوراگرکوئی قانونی نقطہ ہوتوسپریم کورٹ ضرورآئیں۔جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی دستاویز جعلسازی سے تیارکی گئی ہوتواس کے فوری فرازنزک کی درخواست دی جاتی ہے۔جبکہ بینچ نے این ایف سی کے سابق سی ای او انجینئر عمر سعید ملک کی جانب سے اپنی برطرفی کو استعفیٰ میں تبدیل کروانے کی درخواست پر اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے جمعہ کے روز فائنل کازلسٹ میں شامل 15کیسز کی سماعت 37منٹ میں مکمل کرلی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے عطاء الحق کی جانب سے خاندانی معاملہ پردائر مقدمہ کے التواکی درخواست پرسماعت کی۔ مدعاعلیہ خاتون ذاتی طور پر بینچ کے سامنے پیش ہوئیں اور کہاکہ اس کی وکیل کرنے کی حیثیت نہیں۔ اس چیف جسٹس کاخاتون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم کیس سنیں گے اور اگرضرورت محسوس ہوئی تو آپ کے لئے وکیل بھی کریں گے۔ اس دوران چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود وکیل قاسم ودود کوروسٹرم پربلایا اوران سے درخواست کی کہ وہ بغیر فیس خاتون کاکیس لڑیں گے۔
چیف جسٹس نے عدالتی عملے کوہدایت کی کہ وہ وکیل کوکیس ریکارڈ کی کاپی فراہم کریں جبکہ خاتون کو بھی ہدایت کہ وہ وکیل کوکیس سمجھائیں۔ جبکہ بینچ نے عبدالجبار کی جانب سے ندیم عباس اوردیگر کے خلاف ضمانت منسوخی کی درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک ماہ 6دن بعد ایف آئی آردرج کروائی، مشالہ سے ٹریکٹربرآمد ہوا، بعد میں درخواست گزارکوایف آئی آرمیں نامزدکیا۔ اس دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احمد رضاگیلانی نے بتایا کہ کیس میں چالان دائر ہوچکا ہے اور فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ ٹرائل کورٹ جلد ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ کرے گی اور چیلنج کردہ فیصلے میں دی گئی فائنڈنگز سے متاثر نہیں ہوگی اور میرٹ پر فیصلہ کرے گی۔
چیف جسٹس کاحکم میں کہنا تھا کہ اگر درخواست ضمانت کاغلط استعمال کرے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔بینچ نے احسان اللہ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف ضمانت منسوخی کی درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سیشن عدالت نے ضمانت دی اور ہائی کورٹ نے منسوخ نہیں کی ہم کیوں مداخلت کریں۔ عدالت نے قراردیا کہ ٹرائل کورٹ موجودہ فیصلے میں دی گئی فائنڈنگز سے متاثر ہوئے بغیر قانون کے مطابق جلد ازجلد سماعت کر کے فیصلہ کرے اور اگر درخواست گزار ٹرائل میں تاخیری حربے استعمال کرے توقانون اپنا راستہ خود بنائے۔ بینچ نے انجینئر عمر سعید ملک کی جانب سے وفاق پاکستان کے خلاف دائردرخواست پرسماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل قاسم ودود کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن آف پاکستان (پرائیویٹ)لمیٹڈ (این ایف سی) کے سی ای او تھے اورنہیں ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل 10جگہ انٹرویو دینے گئے ہیں اور ہر جگہ ان سے ایک ہی سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کو پری میچورکیوں نکالا گیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میری برطرفی کواستعفیٰ میں تبدیل کردیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس سے کسی کوبلائیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ درخواست گزار کی استدعا پر غورکریں۔جبکہ بینچ نے کفایت اللہ اوردیگر کی جانب سے کرامت اللہ اور دیگر کے خلاف کیس واپس بھجوانے کے معاملہ کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔درخواست گزارکی جانب سے مدثر خالد عباسی بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 100کنال زمین میں سے 60کنال آگے بیچی جاچکی ہے جبکہ 40کنال رہتی ہے۔ چیف جسٹس نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد روکتے ہوئے کیس کی مزیدسماعت 30مئی تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیاآپ نے ای میل کے زریعہ درخواست دائر کرتے ہوئے سافٹ کاپی لگائی تھی۔ اس پر وکیل کاکہناتھا کہ نہیں لگائی تھی۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پھر آپ کاکیس سماعت کے لئے مقررنہیں ہونا چاہیئے تھا۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جہاں وکیل اپنا ای میل ایڈریس درج کرتے ہیں اس کے ساتھ درخواست گزارکا بھی ایڈریس لکھا کریں تاکہ سماعت کاحکمنامہ وکیل کے ساتھ درخواست گزار کوبھی بذریعہ ای میل بھیجا جاسکے، یہ بات بارروم میں دیگر وکلاء کوبھی بتادیں۔ جبکہ بینچ نے ملک منیر حسین کی جانب سے 6سالہ بچے کے خرچ کے معاملہ پر دائر درخواست پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خاندانی معاملات میں حقائق کے تعین کے حوالہ سے ایپلٹ کورٹ اور زیادہ سے زیادہ ہائی کورٹ تک آئیںاوراگرکوئی قانونی نقطہ ہوتوسپریم کورٹ ضرورآئیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 6سال کابچہ ہے اس کاخرچ 30ہزار روپے مقررکیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حقائق کامسئلہ ہے ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے منظوراوردیگر کی جانب سے مسمات اقرار اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سید رفاقت حسین شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ زبانی نکاح ہوا تھا ، خاوند نکاح کی مجلس میں موجودنہیں تھا، کابین نامہ کی بنیاد پر تینوں عدالتوں میں کیس چلا، درخواست گزار کاکابین نامہ پر انگوٹھا موجود نہیں، سسر کا انگوٹھا موجود ہے، مدعا علیہ کی جانب سے کہا گیا کہ اسے والدین نے اڑھائی تولے سونادیا تھا جو چھین لیاگیا تاہم کسی عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سسر سے جائیدادجارہی ہے یہ توخاوند کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کاکہنا تھا کہ اگر کوئی دستاویز جعلسازی سے تیارکی گئی ہوتواس کے فوری فرازنزک کی درخواست دی جاتی ہے جبکہ درخواست گزار نے ایسا نہیں کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ گواہوں کولے آئے جس سے دستاویز ثابت ہوگئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈگری کس کے خلاف ہوئی ہے۔ اس پر سید رفاقت حسین شاہ کاکہنا تھا کہ خاوند اورسسردونوں کے خلاف۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ درست نہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل کوہدایت کی کہ فواداسحاق کیس پڑھ کرآئیں یہ آپ کے حق میں ہے۔ بینچ نے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔