افغانستان کے ساتھ براہ راست بات چیت خیبر پختونخوا حکومت کا اختیار نہیں ، شاہد خاقان عباسی

ڈیرہ اسماعیل خان( صباح نیوز )عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ براہ راست بات چیت خیبر پختونخوا حکومت کا اختیار نہیں بلکہ یہ ریاستی سطح کا معاملہ ہے، جسے وفاقی حکومت کو ہی دیکھنا چاہیے، بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ ریاست کی سطح پر طے پاتے ہیں، صوبائی حکومت کی براہ راست مداخلت سے مسئلے کے حل کے بجائے پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ(ن)ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی صدر پرنس ملک ریحان کے بیٹے ملک شہروز کے ولیمہ کی تقریب میں شرکت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت معاشی، سیاسی اور سکیورٹی بحرانوں کا شکار ہے اور ان مسائل کا واحد حل جمہوری عمل اور سیاسی استحکام میں پوشیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اس وقت کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بن رہی بلکہ ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے، کیونکہ گزشتہ ایک سال میں حکومت کی طرح اپوزیشن بھی منقسم رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے بغیر کوئی مثر سیاسی تحریک ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے مختلف جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے تاکہ اختلافات کو ختم کر کے اجتماعی سوچ پیدا کی جا سکے۔ بعض معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے، جبکہ کچھ اب بھی حل طلب ہیں۔بجلی کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ کمی حکومت کی کسی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے باعث ممکن ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کل پیٹرول کی قیمتیں دوبارہ بڑھ گئیں تو بجلی ایک بار پھر مہنگی ہو جائے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ توانائی کے مسئلے کا دیرپا اور پائیدار حل پیش کرے۔بلوچستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہاں کا بحران محض مقامی نوعیت کا نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں انتخابات میں شفافیت نہ ہو، وہاں سیاسی بے چینی اور نفاق جنم لیتے ہیں۔ بلوچ عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے، انہیں وسائل پر اختیار دیا جائے، عزت اور نمائندگی دی جائے۔ یہی مطالبات ملک کے باقی عوام کے بھی ہیں۔نیب پر تنقید کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ادارہ گزشتہ 25 برسوں سے سرگرم ہے مگر آج تک اس کے بنائے گئے مقدمات میں ایک بھی سیاستدان کو سزا نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کے تمام کیسز جھوٹے اور سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور یہ ادارہ محض سیاسی انتقام کا ذریعہ بن چکا ہے۔آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی اہم قومی مسئلے پر اے پی سی بلائی جائے اور اس میں ملک کی بڑی سیاسی قیادت، خصوصا عمران خان، شامل نہ ہو تو یہ کانفرنس بے معنی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پہل کرتے ہوئے عمران خان کو پے رول پر لا کر اے پی سی میں شرکت کی دعوت دیتی، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے عمران خان پر بھی زور دیا کہ وہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں اور اپنی جماعت کو قومی امور میں شرکت کی اجازت دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ باہمی نفاق ہے جو کسی اجتماعی فیصلے کو ممکن نہیں ہونے دیتا۔افغان مہاجرین کی ملک بدری سے متعلق شاہد خاقان عباسی نے نگران حکومت کی پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ یکطرفہ اور جلد بازی پر مبنی تھا جس پر قومی سطح پر باقاعدہ بحث ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین گزشتہ تقریبا پچاس برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، ان کی نئی نسلیں یہاں پیدا ہوئیں اور کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اس صورتحال کو انسانی اور تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق تمام مہاجرین کو ایک جیسا سمجھ کر نکالنے کی کوشش نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے سنگین نتائج بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو اس معاملے پر بحث کرنی چاہیے تاکہ ایک متوازن اور انسان دوست پالیسی تشکیل دی جا سکے۔شاہد خاقان عباسی نے گفتگو کے اختتام پر کہا کہ پاکستان کو اس وقت شدید چیلنجز کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے اجتماعی قومی سوچ، جمہوری ہم آہنگی اور سیاسی استحکام ناگزیر ہیں۔