جتنے بھی بارودی مواد برآمدگی کے کیسز ہیں سب میں ملزمان کسی پارک میں بیٹھے کسی کاانتظار کر رہے ہوتے ہیں، جسٹس ملک شہزاد احمد خان

اسلا م آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جتنے بھی بارودی مواد برآمدگی کے کیسز ہیں سب میں ملزمان کسی پارک میں بیٹھے کسی کاانتظارکررہے ہوتے ہیں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تھوڑا سافرق آیا ہے کالے شاپر کی جگہ سفید شاپرآگیا ہے۔پولیس والے پہلے سے درخواست گزارکوجانتے تھے اوریہ بھی پتا تھا کہ فلاح مدرسے سے تعلق ہے۔ اسلام کے غلبہ کاہرکسی کااپنا انداز ہے۔جبکہ عدالت نے بارودی برآمدگی کیس میں ملزم کی بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کاحکم دے دیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاداحمد خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے حافظ عاشق المعروف قاری صاحب کی جانب سے انسداددہشت گردی ایکٹ اوردیگر دفعات کے تحت 10سال سے زائد سزاکے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے عارف محمود رانا بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل عرفان ضیاء پیش ہوئے۔

وکیل کاکہنا تھا کہ ریڈنگ پارٹی کے رکن سرمد میر نے واقعہ کے حوالہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ریڈ کرنے والے پولیس اہلکاروردی میں تھے یا بغیر وردی، کیا جب ریڈ کیا گیا تووہ ڈیوٹی پرتھا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جب ریڈ کرنے گئے توپولیس والوں کے پاس صرف ایک پستول تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کہاں سے پتا چلا کہ بارودی مواد کاوزن 250گرام ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار پارک میں بیٹھے رہے کوئی کھاناپینا بھی کیا ہوگا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارپہلے سے تحویل میں تھا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ تفتیشی افسرکے آنے سے قبل ہی بارودی مواد سیل کرکے پارسل تیارہوچکا تھا، فیصل جمیل نے شکایت بھجوائی تاہم وہ ٹرائل میں پیش نہیں ہوا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سب انسپیکٹر خالد محمود اپنے گھر سے آیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ریڈ کرنے والوں نے تھانہ راوی روڈ کو اطلاع نہیں دی،خالد محمود سی ٹی ڈی لاہور میں تعینات ہے جو کہ 20کلو میٹردور سے آیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ پولیس اہلکار دوسرے تھانے کی حدود میں کیا کرنے گئے تھے، بارودی موادکافارنزک کدھر سے کروایا۔

اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی سے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ لوگ پارک میں آرہے تھے جارہے تھے واک کررہے تھے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کہنا تھا کہ مستقل چوکی ہے تاہم متعلقہ تھانے کے بندے کوساتھ نہیں لے گئے، ایک گواہ نے سچ بولا کہ قانون کی خلاف ورزی ہم نے بھی کی ڈبل سواری پرپابندی تھی ہم ایک موٹر سائیکل پر تین اہلکارسوارہوکرگئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پولیس والے پہلے سے درخواست گزارکوجانتے تھے اوریہ بھی پتا تھا کہ فلاح مدرسے سے تعلق ہے۔

وکیل کاکہنا تھا کہ پوری شہادتوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ درخواست گزارکاکس تنظیم سے تعلق ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اسلام کے غلبہ کاہرکسی کااپنا انداز ہے۔وکیل کاکہنا تھا کہ قبضہ کی حد تک 5سال سزا ہے جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 14سال سزا ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ یہ ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری تھی کہ ملزم دہشت گردی کے لئے بارودی مواد استعمال کرنا چاہتا تھا۔

وکیل کاکہنا تھا کہ شوکت علی تفتیشی افسر بعد میں موقع پر آیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ملزم نے شروع سے کہا کہ باروی مواس اس کے قبضہ میں نہیں تھا۔ عدالت نے درخواست گزار کی سزاکالعدم قراردیتے ہوئے باعزت بری کردیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔