اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تنا سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو در پیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا۔ یہ بات ‘پاکستان-افغانستان اقتصادی اور تجارتی تعلقات’ کے عنوان پر انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقد ہونے والی ایک نشست میں بیان کی گئی۔ اس نشست میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن، وائس چیئرمین آئی پی ایس اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین، پاک افغان امور کے ماہرسابق سفیر ایاز وزیر، سینئیر تجزیہ نگار بریگیڈئیر(ر) سید نذیر،صدر پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جنید اسماعیل مکڈا، خیبر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پیٹرن ان چیف سید جواد حسین کاظمی، صدر سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فضل مقیم خان، نیشنل ڈائیلاگ فورم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شہریار خان ، اور صحافی اور افغان امور کے تجزیہ نگار طاہر خان نے اظہارِ خیال کیا۔
شرکا نے کہا کہ پاک افغان تجارتی تعلقات میں مسائل طویل عرصے سے موجود ہیں، جن کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام اور افغانستان میں حکومتی تبدیلیاں ہیں، جو معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ بار بار سرحدی راستوں ، بالخصوص تورخم بارڈر کی بندش ہے، جس سے ٹرانزٹ ٹریڈ متاثر ہوتی ہے اور یورپ جیسی اہم بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ اسمگلنگ، کمزور انفراسٹرکچر، بینکنگ اور ادائیگی کے مسائل، غیر موثر بارڈر مینجمنٹ، تجارتی معاہدوں کا ناقص نفاذ، ڈیجیٹل ٹریڈ پروسیسنگ کی کمی، شفاف ڈیجیٹل نگرانی کے نظام کا فقدان، اور فرسودہ تجارتی قوانین بھی کاروبار میں آسانی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔غیر مستحکم سیکورٹی ماحول کے ساتھ مل کر یہ چیلنجز وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے علاقائی کھلاڑیوں کو متبادل تجارتی راستے تلاش کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایک طرف اس سے افغانستان کا پاکستان پر انحصار کم ہوتا دکھائی دے سکتا ہے، لیکن دوسری طرف، ایران کے چاہ بہار پورٹ جیسے متبادل کے جغرافیائی محدودات اسے کم قابل عمل بناتے ہیں، جس سے افغانستان کی پاکستان کے ساتھ تجارت میں دلچسپی برقرار رہ سکتی ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ماہرین نے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے، بینکنگ کی سہولیات کو بہتر بنانے، اور تجارتی ضوابط پر نظرثانی کرتے ہوئے کاروبار کو آسان بنانے کے لیے افغانستان-پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ(اے پی ٹی ٹی اے) کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ تجویز بھی دی گئی کہ اسٹیک ہولڈر کی زیرِ قیادت انتظامی کمیٹی کے ساتھ ایک مخصوص تجارتی ترقی کی پالیسی متعارف کرائی جائے تاکہ چھوٹے تجارتی مسائل کو فوری طور پر حل کیا جا سکے اور غیر ضروری رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
مزید برآں، یہ مشاہدہ کیا گیا کہ طورخم بارڈر، جو کہ ایک اہم تجارتی گیٹ وے ہے، کا زیادہ موثر طریقے سے انتظام کیا جانا چاہیے، سرحد کی بندش کو بطور آلہ استعمال کرنے کے بجائے بلا تعطل تجارتی بہا کو برقرار رکھنے پر توجہ دی جائے۔ بیرونی شراکت داروں کو شامل کرنا اور سرحد پار ٹیرف کی حکمت عملیوں کو نافذ کرنا بھی اقتصادی تعاون کو بڑھا سکتا ہے۔
طویل المدتی تجارتی تعلقات کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مقررین نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک جامع اقتصادی معاہدہ ضروری ہے، جس سے ایسے باہمی فوائد کو یقینی بنایا جا سکے جو سیکیورٹی خدشات سے متاثر نہ ہوں۔ مزید برآں، مقامی کمیونٹیز کو تجارتی مباحثوں میں شامل کرنا، ڈیجیٹل نگرانی کو مضبوط بنانا، اور علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے نشاندہی کی کہ اگرچہ پاکستان نے 2018 میں جیو اکنامک حکمت عملی اپنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد میں کوئی تسلسل نہیں رہا۔ انہوں نے ایک جامع، اچھی طرح سے مربوط اور طویل مدتی حکمت عملی کی وکالت کرتے ہوئے بحران پر مبنی فیصلہ سازی کے بجائے مربوط علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا۔ سیشن کا اختتام اس اتفاق رائے کے ساتھ ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کو تجارتی معاہدوں کو مضبوط کرنے اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے ضوابط کو ہموار کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، تجارتی مسائل کو فعال طریقے سے حل کرنے کے لیے منظم طریقہ کار قائم کرنا چاہیے، تجارتی پروسیسنگ میں ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینا اور بینکنگ چینلز کو بہتر بنانا، وسیع تر اقتصادی تعاون کے لیے بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا، اور سیاسی تنا کی وجہ سے تجارتی رکاوٹوں سے بچنے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ اقتصادی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔۔