اسلام آباد(صباح نیوز) دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی اور کاربن کے اخراج کے بڑے عوامل میں شمار ہونے والی تعمیراتی صنعت ، پاکستان میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین چیلنجز کو بڑھا رہی ہے۔ پائیدار ترقی، سرکولر اکانومی اور ماحول دوست تعمیرات کو فروغ دیئے بغیر اس شعبے کو ملکی ماحولیاتی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں بنایا جا سکتا۔
ماہرین نے قرار دیا کہ سبز تعمیرات کیلئے ٹیکس مراعات، سخت ماحولیاتی قوانین اور موثر نفاذی حکمت عملی کے بغیر اس صنعت کو پائیداری کی راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک اعلی سطح کے مشاورتی ویبینار میں کیا۔اجلاس میں ماہرین، پالیسی سازوں اور صنعت کے نمائندوں نے تعمیراتی شعبے میں پائیداری، وسائل کے محتاط استعمال اور کاربن کے اخراج میں کمی کیلئے جامع اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔
چیئرپرسن سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کلیدی خطاب میں بڑے شہری مراکز میں سالڈ ویسٹ کے بڑھتے ہوئے بحران اور اس کے دریائے سندھ پر سنگین اثرات کا ذکر کیا جو دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آلودہ دریا بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ غیر رسمی شعبہ مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے اصولوں پر عمل کر رہا ہے مگر باضابطہ شعبے کو بھی قومی پالیسیوں میں ضم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے تعمیراتی ضوابط کے نفاذ اور زیرو ویسٹ حکمت عملیوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کے تحت ایک خصوصی نفاذی فورس تشکیل دینے کی تجویز بھی دی۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اس مشاورت کو ایک انقلابی قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیراتی شعبے کو سرکولر اکانومی اور صفر کاربن کے اہداف سے جوڑنے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ انہوں نے غیر پائیدار وسائل کے بے دریغ استعمال اور کاربن کے اخراج کو نہ صرف ماحولیاتی تباہی بلکہ فضائی آلودگی، خصوصا سموگ کی بڑی وجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تعمیراتی شعبے کے سبز اصلاحاتی عمل کوپائیدار ترقی کو فروغ دینے والے ٹیکس نظام کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے ۔قومی آفات کے خطرے سے نمٹنے کے فنڈ(این ڈی آر ایم ایف) کے سی ای او بلال انور نے تعمیراتی صنعت کی معیشت میں کلیدی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ اس وقت یہ صنعت تعطل کا شکار ہے اور اس کی بحالی کے لئے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں ماحولیاتی تبدیلی، پائیداری اور سبز تعمیراتی طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے قومی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ ماضی کی طرح یہ اب بھی روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اکبر محمود زیدی نے عالمی اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعمیراتی صنعت 30 سے 40 فیصد گرین ہاوگیسز کے اخراج کا سبب بنتی ہے، جبکہ پاکستان میں پیدا ہونے والا 25 سے 30 فیصد تعمیراتی ملبہ زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسلام آباد میں وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے قدرتی ذخائرتیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ کامران خان ممتاز نے صنعتی ترقی اور تعمیراتی سرگرمیوں کو ماحولیاتی بحران کا ایک بڑا عامل قرار دیتے ہوئے پالیسی سازوں کو متنبہ کیا کہ انہیںروایتی طریقہ کار اور سرکولر معیشت پر مبنی سخت ضوابط میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔نیشنل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (این ای ڈی) کے ڈاکٹر سعید احمد نے ملک میں دس ملین شہری مکانات کی ضرورت پر روشنی ڈالی انہوںنے ماضی کے پائیدار رہائشی ماڈلز جیسے خدا کی بستی اور حکومتی منصوبے نیا پاکستان ہاوسنگ پروگرام اور سندھ پیپلز ہاوسنگ فار فلڈ افیکٹیز کو قابل تقلید مثالیں قرار دیا۔ایس ڈی پی آئی کے ڈائریکٹر پرائیویٹ سیکٹر انگیجمنٹ احد نذیر نے استعمال شدہ تعمیراتی مواد کی ایک جامع ڈیٹابیس اور تصدیقی نظام متعارف کرانے کی تجویز دی تاکہ تعمیراتی شعبہ زیادہ مستحکم ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک پائیدار تعمیرات کو مراعاتی پیکیج کے تحت نہیں لایا جاتا اس جانب پیش رفت مشکل ہوگی۔یو این او پی ایس کے ترقیاتی ماہر نعمان امین نے نشاندہی کی کہ دنیا بھر میں انفراسٹرکچر 79 فیصد گرین ہاوس گیسز کے اخراج اور 88 فیصد ماحولیاتی موافقتی اخراجات کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان میں پائیدار تعمیرات کو فروغ دینے کیلئے ٹیکس پالیسیوں میں واضح اصلاحات کی جائیں۔ماہرین کا متفقہ موقف تھا کہ تعمیراتی صنعت کو ماحول دوست بنانے اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت اور معاشرے کے تمام فریقین کو اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا تاکہ یہ شعبہ ماحولیاتی لحاظ سے زیادہ محفوظ، مستحکم اور پائیدار بن سکے۔