’بوگیوں کے اندر جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا سامان بکھرا ہوا تھا‘: صحافیوں نے جعفر ایکسپریس کے اندر کیا دیکھا؟…تحریر محمد کاظمی

‘جعفر ایکسپریس کی بوگیوں کے اندر جگہ، جگہ خون کے علاوہ مسافروں کا سامان بھی بکھرا ہوا پڑا تھا۔ جبکہ ٹرین کے انجن سمیت متعدد بوگیاں پٹری سے اتری ہوئی تھیں۔’

سنیچر کو ٹرین پر حملے کے پانچویں روز جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے کوئٹہ کے صحافیوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پٹریوں اور بوگیوں پر گولیوں کے نشانات اور زمین پر پڑنے والے گڑھے بتارہے تھے کہ حملہ شدید نوعیت کا تھا۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر یہ حملہ ضلع کچھی کے علاقے بولان میں 11 مارچ کو کیا گیا تھا جس میں کم از کم 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد مارے گئے تھے جبکہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 33 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کے دوران سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں اس کے 12 جنگجو بھی ہلاک ہوئے تھے۔

ٹرین میں یرغمال بنائے جانے والے مسافروں کی بہت بڑی تعداد 13مارچ تک بازیاب ہوگئی تھی جن کے بارے میں کالعدم تنظیم کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

تاہم آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کے عزائم کو ناکام بناکر 354 مسافروں کو بازیاب کروایا تھا۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے مطابق اس ٹرین میں سفر کے لیے 425 مسافروں کو ٹکٹ جاری ہوئے تھے۔

بازیاب کروائے گئے اور ہلاک ہونے والے مسافروں کی کُل تعداد 380 بنتی ہے جس کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ باقی 45 مسافر کہاں ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ جو مغویوں کی تعداد میں فرق آ رہا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کچھ لوگوں نے سفر ہی نہیں کیا ہو، کچھ لوگوں نے اگلے سٹیشنوں سے بیٹھنا ہو۔ امکانات یہ بھی ہیں کہ ایک، دو لوگ جو بھاگے تھے وہ بھٹک بھی گئے ہوں یا دوبارہ اُن (حملہ آوروں) کے ہاتھ لگ گئے ہوں۔’

صحافیوں کو جائے وقوعہ تک کس طرح لے جایا گیا؟

حملے کے پانچویں روز صحافیوں کے ایک گروپ کو جائے وقوعہ دکھانے کے لیے کوئٹہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے جایا گیا تھا۔

ہیلی کاپٹر اوسے پور کے علاقے میں اُترا جہاں سے حملے کے مقام تک صحافیوں کو ایک ٹرین میں پہنچایا گیا جو کہ اوسے پور سے 15 سے 20 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔

سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار بھی صحافیوں کے اس گروپ میں شامل تھے جسے بولان لے جایا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جس علاقے میں ٹرین پر حملہ کیا گیا تھا وہ ایک ویران اور دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔

کوئٹہ سے پاکستان کے دوسرے شہروں کے درمیان ریل سروس کی بحالی کے لیے جائے وقوعہ پر ریلوے لائن کی مرمت کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے۔

حملے کے مقام پر میڈیا کے نمائندوں کو فرنٹئیر کور (ایف سی) بلوچستان کے سبّی اسکاؤٹس کے کمانڈر بریگیڈیئر عمر الطاف نے بریفنگ دیتےہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس کو جہاں نشانہ بنایا گیا وہاں کسی قسم کے رابطے کی سہولت موجود نہیں ہے اور اس علاقے میں ایف سی طویل ٹریک کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔

صحافیوں نے کیا دیکھا؟

شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ جعفر ایکسپریس کو اوسے پور کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا تھا جہاں حملہ آوروں نے پہلے ٹرین کی پٹری کو دھماکہ خیز مواد سے اڑادیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے ریلوے لائن پر ایک بڑا گڑھا پڑ گیا ہے جس کی لمبائی اندازاً دس فٹ جبکہ چوڑائی چار سے چھ فٹ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی شدت کی وجہ سے ٹرین کا انجن اور چھ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں جبکہ صرف چار بوگیاں ٹریک پر تھیں۔

صحافی شہزادہ ذوالفقار کے مطابق وہاں ریلوے کے حکام نے انھیں بتایا کہ ٹرین کے ڈرائیور نے دھماکے کے بعد ایمرجنسی بریک لگادی تھی جس کی وجہ سے ٹرین الٹنے سے بچ گئی اور اگر وہ ایمرجنسی بریک نہیں لگاتے تو اس کے الٹنے کا خدشہ تھا جس سے مسافروں کو زیادہ نقصان پہنچتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرین کے انجن کو بھی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا تھا جس سے ٹرین کی ونڈ سکرین کا ایک حصہ مکمل طور پر ٹوٹ گیا تھا جبکہ اس کے دوسرے حصے پر گولیوں کے نشانات تھے لیکن وہ ٹوٹا نہیں تھا۔

صحافیوں کے گروپ میں شامل عرفان سعید کہتے ہیں کہ ٹرین کی بوگیوں پر بھاری اسلحے کی گولیوں کے نشانات بھی موجود تھے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرین پر حملے کے لیے بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ٹرین کو جس مقام پر روکا گیا تھا وہاں جھاڑیاں کو بھی جلایا گیا تھا کیونکہ رات کو وہاں سردی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

عرفان سعید نے بتایا کہ ‘وہاں ہم نے دستی بم بھی دیکھے جو پھٹ نہیں سکے تھے اور ہمارے وہاں پہنچنے تک انھیں ناکارہ بھی نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان کے ارد گرد پتھر رکھے گئے تھے۔’

دوسری جانب شہززادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ راکٹ لانچر کے غیر استعمال شدہ فیوز بھی وہاں پڑے ہوئے تھےجبکہ وہاں استعمال نہ ہونے والی گولیاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرین کے نیچے پانی کے بوتل اور ٹوپیاں وغیرہ بھی پڑی ہوئی تھیں جن کے بارے میں سکیورٹی حکام نے بتایا کہ وہ حملہ آوروں کی تھیں جن میں سے دو کو سکیورٹی فورسز کے کمانڈوز نے ٹرین کے نیچے حملہ کرکے ہلاک کیا، جبکہ تین کو ٹرین کی بوگیوں کے اندر ماردیا گیا تھا۔

بوگیوں میں خون اور خون آلود کپڑے

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بوگیوں کے اندر خون بہت زیادہ تھا جبکہ وہاں خون آلود کپڑے بھی پڑے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں استعمال شدہ کپڑے بھی پھٹے ہوئے پڑے تھے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بعض زخمیوں نے شاید اپنا خون روکنے کے لیے ان کو پھاڑ دیا ہوگا۔

انھوں نے بتایا کہ ٹرین کے قریب بدبو بھی بہت زیادہ تھی جو کہ شاید وہاں لاشوں کی دیر تک موجودگی کے سبب پھیلی تھی۔

’مسافروں کا سامان اب بھی بوگیوں میں پڑا ہے‘

صحافی عرفان سعید کہتے ہیں کہ حملے کا نشانہ بننے والی ٹرین میں بڑی تعداد میں مسافر سفر کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان مسافروں کا سامان اب بھی بوگیوں میں پڑا ہے۔’

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ لوگوں کے بیگز اور سامان کے تھیلوں کے علاوہ ان کے جوتے، گرم لحاف اور استعمال کے برتن بھی جگہ جگہ بکھرے ہوئے پڑے تھے۔

،تصویر کا کیپشنصحافیوں کے گروپ میں شامل عرفان سعید کہتے ہیں کہ ٹرین کی بوگیوں پر بھاری اسلحے کی گولیوں کے نشانات بھی موجود تھے

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی مکمل ہونے تک جو مسافر وہاں موجود تھے وہ اپنا سامان ساتھ لے گئے تھے جبکہ جو مسافر پہلے نکلے تھے ان کا سامان ابھی بھی بوگیوں میں پڑا ہے۔

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بعض صحافیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بوگیوں کے اندر جانا چاہتے ہیں لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے ان کو بوگیوں کے اندر نہیں جانے دیا۔

‘ہمیں بتایا گیا کہ لوگوں کا قیمتی سامان اور دیگر اشیا ان بوگیوں میں موجود ہیں۔ سکیورٹی اہلکار چاہتے ہیں کہ وہ بحفاظت اس سامان کو ریلوے حکام کے حوالے کریں تاکہ ان کو ان کے مالکان یا جو لوگ مارے گِئے ہیں ان کے لواحقین تک پہنچایا جائے۔’

’جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے سکیورٹی اہلکاروں نے رضاکاروں سے موبائل فون لے لیے‘

حملے کے دوسرے روز کلیئرنس آپریشن مکمل ہونے کے بعد پہلے مرحلے میں زخمی ہونے والے مسافروں کو ریسکیو کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں دوسرے روز سکیورٹی فورسز کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد شام پانچ بجے کے قریب رضاکار تنظیموں کے کارکنان جائے وقوعہ تک پہنچ گئے تھے۔

حملے کے مقام پر سب سے پہلے پہنچنے والے لوگوں میں شامل ایک رضاکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ‘مچھ سے ان کو مال گاڑی کے ذریعے جائے وقوعہ تک پہنچایا گیا تاکہ زخمیوں کو نکالا جاسکے۔’

رضاکار نے بتایا کہ ‘جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے سکیورٹی اہلکاروں نے رضاکاروں سے ان کے موبائل فون لے لیے تھے تاکہ وہ وہاں تصاویر یا ویڈیوز نہیں بناسکیں۔’

رضاکار کے مطابق جعفر ایکسپریس کی تین چار بوگیوں کے سوا باقی تمام بوگیوں میں لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ دن کی روشنی کے خاتمے سے پہلے ٹرین سے زخمیوں کو منتقل کرنا چاہتے تھَے اس لیے ان کے لیے لاشوں کی گنتی کرنا ممکن نہیں تھا۔

’ٹرین پرحملے کے فوراً بعد سکیورٹی فورسز نے کارروائی شروع کی‘

حملے کے مقام پر میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کمانڈر سبّی اسکاؤٹس بریگیڈیئر عمر الطاف نے بتایا کہ ’11 مارچ کو دن ایک بجے ہماری چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ ایف سی چیک پوسٹ پر حملے کے ساتھ ہی ٹریک پر بھی دھماکہ کیا گیا، تاہم اس کے باوجود بھی ایف سی نے کافی دیر تک عسکریت پسندوں کو انگیج رکھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایف سی چیک پوسٹ پر حملے کے دوران ایف سی کے تین اہلکار عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے جس کے بعد حملہ آور ٹرین تک پہنچ گئے۔

انھوں نے کہا کہ وہاں شدت پسند بڑی تعداد میں تھے اور ‘ان کی بڑی تعداد پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی تھی۔’

کمانڈر سبّی اسکاؤٹس نے صحافیوں کو مزید بتایا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے مسافروں کو یرغمال بنانے کے بعد صورتحال مشکل ہوگئی تھی تاہم سکیورٹی فورسز نے اس چیلنج کا مقابلہ کیا اور انھیں مسافروں کے قتل عام سے روک دیا۔

انھون نے کہا کہ ‘ہمارے مقامی سیکٹر اور غزہ بند اسکاؤٹس کی نفری بھی آگئی، پھر آہستہ آہستہ مختلف فورسز شامل ہوتی گئیں جس کے بعد حملہ آوروں کو لگا کہ وہ اب وہاں محفوظ نہیں ہیں اور ان کا بڑا گروپ رات کو پہاڑوں کی جانب فرار ہوا لیکن فورسز نے ان کا بھی پیچھا کیا اور ان کو بڑے جانی نقصان سے دوچار کیا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایف سی کے سپیشل آپریشن ونگ کی مدد سے ضرار کمپنی کے اہلکاروں نے ٹرین پر موجود عسکریت پسندوں کو ایسے نشانہ بنایا کہ وہ مسافروں کو نہیں مارسکے۔’

‘ وہ اس صورتحال کو طول دینا چاہتے تھے مگر سکیورٹی فورسز کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکے۔’

بشکریہ بی بی سی اردو