اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کااجلاس کمیٹی کے کنوینر پولین بلوچ کی زیر صدارت پی بی سی ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوا،اجلاس میں پی بی سی کی بحالی، کارپوریشن اینڈ پیمرا (ترمیمی) بل 2024 سے متعلق ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ کمیٹی نے حال ہی میں پی ٹی وی میں تعینات اینکرز کی تفصیلات اور پی ٹی وی اکیڈمی سے کنٹینر کی چوری کی رپورٹ بھی آئندہ اجلاس میں طلب کرلی،
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پی ٹی وی میں نجی شعبے سے معروف اینکرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، ہمارا مقصد پی ٹی وی کے ریونیو میں اضافہ کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی میں سفارش پر بھرتی ہونے والے افراد سے ہم نے معذرت کی۔انہوں نے کہا کہ پروڈکشن ٹیم کے اخراجات زیادہ ہیں، اینکرز سے کہا ہے کہ وہ اشتہارات لائیں تو انہیں کمیشن دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبے میں اشتہارات کی وجہ سے اینکرز کو بھاری تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، پی ٹی وی میں پرائیویٹ سیکٹر سے 10 اینکرز لائے گئے۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ سپورٹس چینل سے ہمیں اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی وی ٹیریسٹیریل نشریات پیش کرتا ہے، دور دراز علاقوں میں لوگوں کو نشریات کے لئے انٹرنیٹ یا دیگر ذرائع کی ضرورت نہیں ہوتی، وہاں لوگ عام انٹینا لگا کر پی ٹی وی کی نشریات دیکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر ہر دور میں بھرتیاں ہوئیں، ایسی بھرتیوں کی وجہ سے ادارے کو نقصان پہنچا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نجی شعبہ میں تین تین ماہ تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی، پی ٹی وی میں صرف 21 دن تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو ہر جگہ شور مچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے رائٹس کیلئے بڑی ادائیگی کرنا تھی جس کی وجہ سے پی ٹی وی میں تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی، ہماری خواہش تھی کہ پاکستان کے ہر علاقے اور گائوں میں لوگ چیمپئن ٹرافی دیکھیں، ہم نے کرکٹ کے رائٹس کو محفوظ کیا ہے۔عطا للہ تارڑ نے کہا کہ پی ٹی وی میں 15 جنوری کو گروپ 1 سے 6 تک کی تنخواہیں ادا کیں اور اس کے بعد گروپ 6 سے 9 تک کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔ قائمہ کمیٹی نے پاکستان ٹیلی ویژن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو خود انحصاری کے لئے ڈھانچہ جاتی اور مالی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ کمیٹی نے دونوں اداروں کو قومی یکجہتی کے علمبردار اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ قرار دیا۔ کمیٹی نے کہا کہ ماضی میں پی ٹی وی اور پی بی سی کو نقصان پہنچانے والے انتظامی فیصلوں اور سیاسی تقرریوں کے بوجھ تلے دبایا گیا۔اجلاس میں پی بی سی کی بحالی، کارپوریشن اینڈ پیمرا (ترمیمی) بل 2024 کے ذریعے دستیاب وسائل کے استعمال کے ذریعے خودکفیل بنانے سے متعلق ایجنڈے پر تبادلہ خیال ہوا۔
ڈائریکٹر جنرل پی بی سی نے کمیٹی کو ادارے کی بحالی کے منصوبے سے متعلق بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات اور سیکریٹری اطلاعات کی موجودہ دانشمندانہ قیادت میں پی بی سی کو مختلف انتظامی اور مالی اقدامات کے ذریعے بحالی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ انتظامی اور ترقیاتی اخراجات پورا کرنے کے لئے آمدنی میں اضافہ کرنا ایک مشکل کام ہے، آمدن بڑھانے کے لئے پی بی سی کے تمام علاقائی دفاتر کے ذریعے اشتہارات اور ایئر ٹائم کی فروخت کا مالیاتی منصوبہ وضع کیا گیا ہے جس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے دستیاب مختلف غیر استعمال شدہ جگہوں کو استعمال کرنے، اے ٹی ایم بوتھس/کیبنز ، بل بورڈز اور ڈیجیٹل سکرینز کی تنصیب کے ذریعے آمدن حاصل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے تقریبا 500 ارب روپے سے زائد کی آمدن متوقع ہے۔کمیٹی کو پنشنرز کی آٹومیشن کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنشن کی آٹومیشن کے ذریعے گھوسٹ پنشنرز کے خاتمے میں مدد ملی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ریڈیو نے کمیٹی کو مختلف اداروں، ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں اور افراد کے ذمہ واجب الادا رقوم کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ واجبات کی وصولی کے لئے انتظامی اور قانونی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔کمیٹی نے نادہندہ سکیورٹی فرم کا معاملہ بھی اٹھانے کی ہدایت کی جس پر پی بی سی کے 403 ملین روپے کے واجبات ہیں بصورت دیگر کمیٹی نے یہ معاملہ وزارت داخلہ کو بھجوانے کی ہدایت کی۔ کمیٹی نے ادارے کی خودانحصاری کی جانب وفاقی وزیر اطلاعات اور سیکریٹری اطلاعات کی کاوشوں کو سراہا۔ کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ پی بی سی کی پراپرٹیز کے کرایوں کی شرح کا از سر نو جائزہ لیا جائے جو اس وقت مختلف سرکاری اور نجی اداروں نے کرایہ پر حاصل کر رکھی ہیں۔ان پراپرٹیز کی مد میں وصول ہونے والے کرایوں کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لایا جائے۔ پی بی سی کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنز کے بقایا جات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے فنانس ڈویژن کے ساتھ معاملہ اٹھانے کی ہدایت کی۔ کمیٹی نے پی بی سی ٹریننگ اکیڈمی اور مقامی سرکاری و نجی شعبہ کی یونیورسٹیوں کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹس اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمانی سروسز جیسے اداروں کے درمیان تعاون کی تجویز بھی پیش کی تاکہ پی بی سی کی تربیتی سہولیات کا بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔کمیٹی نے حال ہی میں پی ٹی وی میں تعینات اینکرز کی تفصیلات اور پی ٹی وی اکیڈمی سے کنٹینر کی چوری کی رپورٹ بھی آئندہ اجلاس میں طلب کی۔ رکن قومی اسمبلی آسیہ ناز تنولی کی جانب سے پیش کردہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2024پر بحث کے دوران کمیٹی نے ڈراموں اور اشتہارات کے لئے ضابطہ اخلاق یا سینسر شپ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا جو بعض اوقات مذہبی اور سماجی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔کمیٹی نے اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے سفارشات پر بحث کے لئے رکن قومی اسمبلی مہتاب اکبر راشدی کی زیر صدارت چار رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے انٹرٹینممنٹ صنعت میں موجود سٹیک ہولڈرز اور ریگولیٹر کے ساتھ مشاورت جاری رکھنے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی ندیم عباس، کرن عمران ڈار، آسیہ ناز تنولی، رومینہ خورشید عالم، شرمیلا فاروقی، سحر کامران، رانا انصار، وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات، ڈائریکٹر جنرل پی بی سی اور متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی۔۔