سویلینز کے فوجی ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت

اسلام آباد(صباح نیوز)سویلینز کے فوجی ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کی رکن جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایسے لگ رہا ہے کہ آرمی ایکٹ ، آئین پر غالب ہے ، ہمیں توڑ پھوڑ اور دہشت گردی میں تفریق کرنی ہوگی، کیا کسی اہلکار کو ڈیوٹی کرنے سے روکا کوئی ڈیوٹی کرہی نہیں رہا تھا۔ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل8میں سیکشن 5شامل کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا ہے کہ کیاآئین کے آرٹیکل 8-3میں فوجداری معاملات کولاسکتے ہیں، فوجداری قوانین پہلے سے موجود ہیں، سویلینز بھی اس سیکشن کاسبجیکٹ ہوسکتے ہیں کہ نہیں یہ سوال ہے۔ ہم آئین تک محدود رہیں گے۔ جب کوئی شخص مسلح افواج میںشمولیت اختیار کرتاہے تووہ اپنے بنیادی حقوق ختم ہونے کوتسلیم کرتا ہے۔ آئین میں دیئے گئے حقوق سے کس طرح لوگوں کومحروم کیا جاسکتاہے۔ فوجی چھائونی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر نے دیا تھا،حضرت عمر  نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا،یہ ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی بارڈرز سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانخواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم اپیل میں فیصلے کے اثرات کودیکھ رہے ہیںہم فیصلے کی توثیق کریں گے یااسے کالعدم قراردیں گے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62کی تشریح کے کیس میں قراردیا ہے کہ نہ آئین کوکالعدم قراردے سکتے ہیں اور نہ ہی دوبارہ لکھ سکتے ہیں، اگر فیصلے کے تحت ہم قانون کوکالعدم قراردے سکتے ہیں تو بتادیں ہم کردیتے ہیں۔ جبکہ بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان کو 9مئی کے واقعات کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات جمع کروانے کی ہدیات کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل (جمعہ )تک ملتوی کردی گئی ۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل7رکنی آئینی بینچ نے 9مئی 2023واقعہ کے سول ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کے فیصلہ کے خلاف دائر 37انٹراکورٹ اپیلوں پرجمعرا ت کے روز سماعت کی۔ اپیلیں شہدا فائونڈیشن بلوچستان، وفاقی حکومت ، پنجاب حکومت اوردیگر کی جانب سے دائرکی گئی ہیں۔ درخواستوں میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ،بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن، کرامت علی، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن آف پاکستان، زمان خان وردگ، جنید رزاق اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے ۔جمعرات کے روز درخوستوں کی سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی طبعیت کیسی ہے۔

اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اب کافی بہتر ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خواجہ صاحب ہمارے پاس آج بھی ایف آئی آرز کی کاپی نہیں ہے، کون سے قانون پی پی سی یاآرمی ایکٹ کے تحت ملزمان کے خلاف الزام ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آرز ہوئیں، میرے پاس ایف آئی آر کی کاپی نہیں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھاکہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ہم آئین کے آرٹیکل 8کے تناظر میں دیکھنا ہے۔ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جب بنیادی حقوق کاسوال نہیں تویہ درخواست ہی آئین کے آرٹیلل 184-3کے قابل سماعت نہیں تھی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ تیسرا شخص کسی بھی جگہ تعینات نہیں تو اسے فوج کے ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ڈسپلن ذمہ داریاں انجام دینے کے حوالہ سے ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اگرریاست نہیں ہو گی توہم بھی کہیں نہیں ہوں گے، مسلح افواج کے اہلکار بھی دیگر شہریوں کی طرح سویلینز ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب کوئی شخص مسلح افواج میںشمولیت اختیار کرتاہے تووہ اپنے بنیادی حقوق ختم ہونے کوتسلیم کرتا ہے۔ جسٹس خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے، اگر صدرہائوس پرحملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا مگر آرمی رسٹ ہاوئس پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹس میں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فیصلے میں یہ سب باتیں مانی ہوئی ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہایسے لگ رہا ہے کہ آرمی ایکٹ ، آئین پر غالب ہے ، ہمیں توڑ پھوڑ اور دہشت گردی میں تفریق کرنی ہوگی، کیا کسی اہلکار کوڈیوٹی کرنے سے روکا یا کوئی ڈیوٹی کرہی نہیں رہا تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیاسویلینز کو وکیل کرنے کاحق دیا ہے کہ نہیں، فیصلہ دیا جاتا ہے کہ نہیں اور فیئر ٹرائل کاحق ہے کہ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہرکاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رولز ہیں تووہ لگادیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فوجی افسران فوجی عدالتوں کوچلاتے ہیں اورجرم کی نوعیت کودیکھاجاتاہے۔

خواجہ حارث کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل8کا سیکشن 1 غیرموثرنہیں کردیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جولوگ آرمی ایکٹ کے دائرہ کار کے باہر لوگ ہیں کیاان پراس قانون کااطلاق ہوگا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ملزمان کووکیل کرنے اور جس مواد کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ دکھانے سے انکارکیاگیا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ بار، بار عدالتوں نے قراردیا ہے کہ سویلینز آرمی ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 5میں سے 4ججز نے قانون کوکالعدم قراردیا، مدعاعلیہان کے وکلاء کواس بات کاجواب دینا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 4ججزقانون کوکالعدم قرارنہیں دے سکتے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہم 8اور9رکنی بینچوں کے فیصلوں کودیکھ سکتے ہیں، اگر نہ جانا چاہیں توکیا ہوگا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل8میں سیکشن 5شامل کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جو بھی سویلین کسی فوجی کواپنی ذمہ داریاں انجام نہ دینے کے حوالہ سے ورغلائے گااس کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی کی جاسکتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاآئین کے آرٹیکل 8-3میں فوجداری معاملات کولاسکتے ہیں، فوجداری قوانین پہلے سے موجود ہیں، سویلینز بھی اس سیکشن کاسبجیکٹ ہوسکتے ہیں کہ نہیں یہ سوال ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سویلینز کو فیئر ٹرائل کاحق حاصل ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم آئین تک محدود رہیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نظرثانی اپیل سن رہے ایسے لگ رہا ہے ابتدائی مرحلہ پر دلائل ہورہے ہیں، قانون غلط یاصیح کالعدم ہواہم نے یہ دیکھنا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم اپیل میں فیصلے کے اثرات کودیکھ رہے ہیںہم فیصلے کی توثیق کریں گے یااسے کالعدم قراردی گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے سوال کے مطابق جیسے چاہے دلائل دیں، اس میں کچھ شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں سویلینز کو بھی آرمی ایکٹ میں شامل کردیا گیا۔ خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟

خواجہ حارث کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل8کا سیکشن 1 غیرموثرنہیں کردیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کردے تو کیس کہاں چلے گا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ عام عدالت میں چلے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین میں دیئے گئے حقوق سے کس طرح لوگوں کومحروم کیا جاسکتاہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا فوجی چھائونی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر نے دیا تھا،حضرت عمر  نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا،یہ ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی بارڈرز سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانخواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ذاتی عناد پر فوجی کا قتل الگ اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا طرز پر فوج پر حملے الگ چیزیں ہیں۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آئین توکیاسادہ قانون کو بھی آسانی کے ساتھ کالعدم قرارنہیں دیاجاسکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62کی تشریح کے کیس میں قراردیا ہے کہ نہ آئین کوکالعدم قراردے سکتے ہیں اور نہ ہی دوبارہ لکھ سکتے ہیں، اگر فیصلے کے تحت ہم قانون کوکالعدم قراردے سکتے ہیں تو بتادیں ہم کردیتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا یہ قانون مسلح افواج کے اہلکاروں کے ذمہ داریوں کی انجام دہی اور ڈسپلن کے حوالہ سے متعلق ہی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایف آئی آرز کی تفصیل دے دیں، کس جگہ کتنی درج ہوئی ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان کو 9مئی کے واقعات کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات جمع کروانے کی ہدیات کرتے ہوئے کیس کی مزید  ْسماعت آج (جمعہ )تک ملتوی کردی گئی ۔ خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔