انسانی حقوق اور دُنیا۔۔۔ تحریر :عمران ظہور غازی

ہر سال 10دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس دن دنیا بھر کی مناسبت سے فورم ،کانفرنسز ، سیمینارزکا انعقاد کیا جاتا ہے جوانسانی حقوق سے آگہی کا عمدہ ذریعہ ہوتےہیں بلکہ ان سے دنیا بھر میں انسانوں کوحوصلہ ملتا ہے۔ دور حاضر میں انسانی حقوق کا بڑا غلغلہ ہے۔
یہ 21ویں صدی میں دنیا نے عالمی گاؤں کا روپ دھارلیا ہے جس میں جمہوریت، انسانی حقوق ،عدل وانصاف اور مساوات کا کمکم اقوام متحدہ اور دوسرے بہت سے اداروں نے بلند کررکھا ہے ۔ انسانی حقوق ہرنوع کے امتیاز ی سلوک کے خلاف ڈھال کا کام دیتے ہیں ہر معاشرے میں امتیازی سلوک کی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں کوئی معاشرہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے ہاں امتیازی سلوک نہیں ہوتا، امتیازی سلوک کسی نہ کسی شکل میں ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے اورہر فرد کو اپنے معاشرے میں تمام سیاسی سماجی معاشی اور قانونی حقوق حاصل نہیں ہوپاتے اوروہ نظر انداز ہوتے ہیں۔
دنیا میں کوئی قوم نہ تو اکیلے ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے اور نہ دنیا میں امن وامان مہیا کرسکتی ہے۔ امن و امان ہو یا ترقی کاحصول یہ سب ایک مشترکہ جہد وکاوش کےمتقاضی ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کاحصول ممکن نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ نے 2000ء میں ترقی کے 8 اہداف طے کئے تھے ۔جن میں تعلیم کا فروغ،وبائی امراض، غربت اور صنفی امتیازکا خاتمہ، ماں اور بچے کی صحت، ماحولیات اور ترقی کے ضمن میں مشترکہ جدوجہدسے اس میدان میں اترنے اور حل کرنے بارے سوچا۔ نئے اہداف کے تحت افراد کی معاشی وسماجی حالت کا سدھار، تعلیم، صحت، ماحولیات، زرعی و صنعتی ترقی اور صنفی بنیادپر تفریق کے خاتمے کے مختلف کام پیش نظر تھے۔ انسانیت کو ترقی کے فوائد وثمرات سے بہرہ ورکے لئے ان اہداف نے لائحہ عمل متعین کیا۔ ہر انسان چاہتا ہے اور اس کا حق ہے کہ اسے تحفظ ملے، صحت و تعلیم تک رسائی ہو اورجان ،مال اور عزت وآبرومحفوظ ہو۔ترقی کے ان تمام اہداف کی بنیاد عدل و انصاف ہے لیکن عالمی منظر نامے میں ایک دوسرا منظر دکھائی دیتا ہے اور ملکی تناظر میں بھی اس کی کوئی واضح صورت نظر نہیں آتی۔
2024ء میں عالمی سطح پر فلسطین میں جس طرح نسل کشی کی گئی ،
۔ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، فلسطین میں مساجد ، سکولوں کوتباہ کر دیا گیا۔ دو ماہ کی مدت میں 50 ہزار ٹن بارود برسایا ہے جو ایک ریکارڈ ہے اور1620 سے زائد شہادتیں ہو چکی جن میں 70 سے زائد خواتین شامل ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق شہداء میں 7112 بچے 4885 خواتین جبکہ 43616 سے زائد زخمی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور غزہ کی تمام آبادی گھر سے بے گھر ہے۔
۔ اب شام خون شام ہے، ہر طاقتور انصاف کےاصولوں کواپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔
۔ امام ابن تیمیہ اور صلاح الدین کے دیش شام میں 54 سالہ جبرواستبداد پر مبنی باپ(حافظ الاسد) کے بعد بیٹے (بشار الاسد) کے دور حکمرانی کا خاتمہ ہوا جس میں ایک لاکھ انسان کام آئے اور انسانی حقوق کا قتل عام ہوتا رہا اور عالمی قوتیں اور UNO خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہیں۔
شام سے بشار الاسد کے رخصتی کے بعد امن وامان کی صورت حال واضح نہیں۔ استعماری قوتیں بالخصوص امریکہ اور اس کے حلیف شام کے حصّے بحرے کرنا چاہیں گے اور اسرائیل کو مضبوط، اس طرح شام مزید تقسیم اور کمزور ہو گا اور نہ اسلامی اتحاد میں شمولیت اور عسکری قوت بننے کے قابل رہے گا۔
۔ کشمیر بھارت کے ظلم وجبر کاشکار ہے ۔
5؍اگست 2019 کو جمہوریت اور سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے بھارت نے وادی کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا ۔ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35-A کا خاتمہ کر کے جبرواستحصال کی نئی داستان رقم کی۔5سال کی پابندیوں کے باوجودکشمیری کس طرح آزادی سے کم پر راضی نہیں ۔ اقوام متحدہ کو فلسطین ، کشمیر جیسے المیوں پر آنکھیں بند کرنے کی بجائے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور روکنا چاہیے۔
وطن عزیزمیں بھی انصاف کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مخصوص طبقہ انصاف کے حصول میں کامیاب ہوتا ہے۔انسان کو بحیثیت مجموعی امن اور انصاف کے حصول کے لیے اس آفاقی پیغام کی طرف مراجعت کرنا ہوگی اسلام کا یہ نظام انسان کو ان مسائل کے حل کے لیے آج بھی قابل عمل حل دیتا ہے۔ جس میں ایک انسان کے انفرادی اور اجتماعی کردار کا تعین کیاگیاہے۔اس کی بنیاد کسی مفاداورتعصب پر نہیں یہ اس خالق حقیقی کا دیا ہوا ابدی نظام ہے ۔ جس کی پیروی سے انسانیت دنیامیں بھی ترقی کا سفرطے کرسکتی ہے اور اُخروی زندگی میں بھی فوز و فلاح اور نجات پا سکتی ہے۔
اس ضمن میں پاکستان میں بھی ماں اور بچے کی صحت کے علاوہ کسی بھی پاکستان جنوبی ایشیاء کے ممالک میں انسانی حقوق کے ضمن میں سب سے نچلی سطح پر ہے ۔ پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاپارہےجن میں 53% پنجاب سے تعلق رکھتاہے۔ یہ مسئلہ اس سے الگ ہے کہ سکول جانے والے بچوں کو فراہم کی جانے والی تعلیم کس معیار کی ہے۔ بچوں کی صحت کا معاملہ اپنی جگہ عدم توجہی کاشکار ہے۔بیماریاں جن کا دنیاسے وجوج ختم ہو چکا وہ پاکستان میں موجود ہیں اور ختم ہونے کانام نہیں لیتیں،سب سے افسوسناک پہلو یہ کہ کسی کا احتساب نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو صرف دکھاوے کے لئےاور کسی معاشرے میں احتساب کا نہ ہونااس معاشرے کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔ احتساب سے ہی مضبوط معاشرےبنتے ہیں۔ پاکستان اوراہلِ پاکستان بے لاگ احتساب کے منتظر ہیں ۔ ایسا احتساب جس کی بنیاد اسلام کے نظام عدل پر ہو اور جو معاشرے میں ہر طرح کی کرپشن اور فساد کاانسداد کر سکے ۔معاشرے میں پائی جانے والی یہ رسوم جن میں کاروکاری، ونی،تیزاب گردی، قرآن سے شادی اور سوارہ شامل ہیں ۔رسوم معاشرے کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث نہیں آگے بڑھنے میں بھی روکاوٹ ہیں۔بعض علاقے ایسے ہیں جن میں بچیوں کوتعلیم کاحق حاصل نہیں، وراثت میں ان کا حصہ نہیں۔طاقتورممالک بالخصوص امریکہ یورپ وغیرہ اس بناء پر معاشی لحاظ سے کمزور ممالک کااستحصال کرنے اور دبانے اور اپنی مرضی مسلط کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم بہت سے معاملات میں غیرذمہ دار انہ رویے اور افراط و تفریط کا شکار ہے۔10سے15 بچے روزانہ جنسی ہوس کانشانہ بنتے ہیں لیکن ان میں ملوث افراد کو کبھی سزا نہیں ملتی۔صوبہ جات میں بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی با ضابطہ اور باقاعدہ پالیسی نہیں دکھائی دیتی ۔ لاکھوں بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں اور سکول نہیں جاپاتے۔ بہت سے بچےحالات کے ہاتھوں مجبور ہو کرمحنت و مشقت کرتے نظر آتے ہیں لیکن حکومتی ترجیحات میں یہ مسئلہ کم ہی نظر آتاہے لیکن معاشرے کے ان بنیادی،حساس اور اہم مسائل کو جو توجہ ملنی چاہیے وہ سردست اس توجہ سے محروم ہیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ۔ اس توجہ کے نتیجے میں انسانی حقوق کی صورت بہتر ہوگی اور صحت وتعلیم اور امن وامان کے مسائل بھی حل ہوں گے۔اسلام سلامتی کا دین ہے اور نظام رحمت جوانسانیت کے تمام تر مسائل کے حل اور دکھوں کے خاتمہ کااب حل پیش کرتا ہے جو انسانیت کا پسندیدہ فطرت کا نظام ہے اور اس نظام نے حضورؐ سرورکائنات کی قیادت میں دنیا کو امن وچین دیا تمام امتیازات کا خاتمہ کیا اور گرے پڑے انسانوں کو سربلند کر دیا۔