آزادکشمیر میں حقوق کے نام تحریک ….ایک جائزہ۔۔۔ تحریر :عبد الرشید ترابی

آزاد جموں وکشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام عوامی حقوق کے حوالے سے حالیہ تحریک ریاست میں ایک خوشگوار تجربہ ہے تحریک کو پرامن اورتیر بہدف بنانے کے لیے کمیٹی کے صدر شوکت نوازمیر اور ان کی ٹیم نے جس حسن تدبر کا مظاہرہ کیا وہ لائق تحسین ہے ‘اسی طرح حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی صبروتحمل اور حکمت سے باہم مذاکرات سے معاملات سلجھاتے ہوئے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا اور متنا زعہ صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا جس کے حوالے سے تمام سیاسی اورعوامی حلقوں میں شدید تشویش اور تنقید کا مظاہرہ ہوا ۔پا کستان میں پرامن مظاہرین پر جس طرح گولیاں چلائی گئیں اور پورا ملک بند کردیا گیا ‘بے تدبیری اور انا پرستی کی وجہ سے پوری دنیا میں نظام اور ادارے بے وقار ہوئے کشمیر کی اس مشق میں پاکستان کے سیاسی اور پالیسی ساز حلقوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ سامان موجود ہے ۔
یہ بھی خوش آئند امر ہے کہ اس ساری مشق میں یہ واضح ہوا کہ رائے عامہ کی طاقت ہی پیچیدہ مسائل حل کرنے میں شاہ قلید ہے۔ اس تحریک میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوئے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنا ن اور مقامی قیادت جماعتی وابستگیوں سے با لاتر ہوکر تحریک کا حصہ رہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارا نظام بانجھ ہو چکا ہے جس کے اندر عوامی مسائل اور جذبات کاادراک کرتے ہوئے اقدامی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے ‘نیز ہماری سیاسی جماعتیں بھی عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکی ہیں اور ایک ایساخلا پیدا ہوچکاہے جسے پر کرنے کے لیے ایکشن کمیٹیز اور احتجا ج کا کلچر فروغ پذیر ہے جو ہماری سیاسی قیادت اور گورننس کے نظام کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔سیاسی جماعتیں جمہوری معاشرے میں مسائل کے حل کے لیے اپنے منشور میں لائحہ عمل تجویز کرتی ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد اس منشور پر عملدرآمد کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کا اہتمام نہ ہونے کے برابر ہے ۔صرف جماعت اسلامی کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پر اپنا منشور پیش کرتی رہی ہے ۔یہ بھی ایک المیہ ہے ایک دو کے علاوہ ریاستی جماعتوں کا کردار ختم ہو چکا۔ اقتدار کی دوڑ میں شامل تین بڑی جماعتوں کو نہ تنظیمی عہدیدار منتخب کرنے کا اختیار ہے اورنہ حکومت سازی کا ،لابنگ کے ذریعے عہدے حاصل کیے جاتے ہیں جنہیں قائم رکھنے کے لیے عوام کی خوشنودی کی بجائے اپنے مرکزی قائدین کو خوش کرتے ہوئے ان کے چشم آبرو کا منتظر رہنا پڑتا ہے ۔یوں حقیقی نمائندہ قیادت منتخب نہیں ہو پاتی ۔
بد قسمتی سے اس میں عوام بھی برابر کے قصور وار ہیں جو جماعتوں کے منشور ‘امیدواران کی کارکردگی اور کردار دیکھے بغیر محض اس بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں کہ اسلام آباد میں کس کی حکومت ہے ۔مزید جوڑ توڑ اور پسندیدہ افراد کے حق میں ماحول بنانے کے لیے حکومتی ادارے بھی بھرپور مداخلت کرتے ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے کشمیری پاکستان سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اسلاف نے آزا دی کشمیر اور تکمیل پاکستان کے لیے بے پناہ قربا نیا ں دی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں شہداءکے جنازے پا کستانی پرچموں میں ملبوس کر کے دفنائے جاتے ہیں ۔بھارتی چنگل سے آزادی کی جدوجہد میں اللہ کی پا ک ذات کے بعد اہل پا کستان ہی سے ان کی توقعات ہیں۔ پاکستان کی بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں اور باہم دشمنی کی بنیاد بھی مسئلہ کشمیر ہی ہے ۔گزشتہ چار دہا ئیوں میں پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود ریاست پاکستان اور عوام اہل کشمیر کی پشت پر کھڑے ہیں ۔اسی جرم کی پاداش میں بھارت نے عالمی استعماری قوتوں کی سازش سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں جکڑ دیا جس سے پا کستان شدید مالی بحران سے دوچار ہوا ۔
علاوہ ازیں پاکستانی عوام نے اکتوبر ۵۰۰۲ءکے شدید زلزلے کی قیامت صغریٰ کے موقع پر جس ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے جسے اہل کشمیر کی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی‘ بلا شبہ کشمیر کا بچہ بچہ ان قربانیو ں کا معترف اور قدر دان ہونے کے باوجود حکومت پاکستان کی چند پالیسیوں سے نا لا ں ہے۔ ان وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا تدارک کرنا چاہیے۔نو جوانوں کا بڑا ردعمل بیس کیمپ کے فرسودہ نظام کے حوالے سے ہے جسے ان کے نزدیک اسلام آباد کی حکومت اور ادارے مسلط کرتے ہیں جس کی عدم فعالیت اور بے تدبیریاں بد زنی پیدا کرتی ہیں ۔پھر تحریک آزادی میں بیس کیمپ کا مجہول کردار بھی اس ردعمل میں مزید اضافہ کرتا ہے ۔با لخصوص اگست ۹۱۰۲ءکے مودی کے اقدامات کے تدارک کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے موثر حکمت عملی کا فقدان باہم بے اعتمادی کا باعث بنا ۔اس وقت کے سپہ سالار کے حوالے سے صحافیوں کے انکشافات سے آر اور پار کشمیر یوں میں یہ تا ثر گہرا ہوا کہ یہ ساراعمل ملی بھگت سے ہوا ۔بے اعتمادی کی اس فضا سے نکلنے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
بدقسمتی سے محدودسطح پر ایک ایسا عنصر بھی موجود ہے جو ہر مسئلے پر پاکستان کو مطعو ن کرتا رہتا ہے ۔اس سارے عمل میں کچھ اسی طرح کے منفی عناصر نے پاکستان بیزار فضا قائم کرنے کی کوشش کی جس کا ایکشن کمیٹی کی قیادت نے بروقت نوٹس لے کر تدارک کیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خطہ ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیوں اور تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس جدوجہد میں پاکستانی رضا کار مجاہدین اور پا ک فوج کابھی اہم کردار ہے ۔پانڈو کے محا ذ کو بچاتے ہوئے میجر سرور شہید بہادری سے لڑے اور نشان حیدر کے حقدار ٹھرے ۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے چپے چپے پرشہداءکا خو ن نچھاور ہوا۔ پاک بھارت جنگوں میں ہزاروں شہادتیں ہوئیں ۔گزشتہ چار دہائیوں میں پاکستان کے ہر ضلعے اور ہر خاندان کے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں کے شانہ بشانہ رہے اوردس ہزارسے زائد نے جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔مقبوضہ ریاست کے شہدا کے ہر قبرستان میں ان کی نمائندگی موجودہے جو تحریک مزاحمت کی تقویت کا ذریعہ ہیں ۔جذباتی نعرے بازی میں پاکستان بےزار ماحول نہ کشمیریوں کے لیے سودمند ہے اور نہ ہمارے کاز ہی کے لیے ۔خودمختاری میں بظاہر بڑی جازبیت ہے لیکن کشمیری پاکستان کے ساتھ ہی خود مختار اور باوقار رہ سکتے ہیں ۔شیخ عبداللہ نے یہ نعرہ لگا کر کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا ۔آج فاروق عبداللہ برملا اظہار کرنے پر مجبور ہے کہ میرے والد نے قائداعظم کے مشورے کو ٹھکرا کر تاریخی غلطی کی ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پا کستان کے قیام اور اس کی پشتیبانی ہی کے نتیجے میں ایک تہائی ریاست آزاد ہوئی۔ آزادی اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے جوقومیں اسلاف کی کمائی کی ناقدری کریں ‘وہ اللہ کی نعمت سے محروم کردی جاتی ہیں ۔مہا راجہ کے غلامی کے نظام میں جو تھوڑا بہت انفرا سٹریکچر اور تعلیمی ادارے تھے ‘وہ سرینگر اور جموں تک محدود تھے۔ پورے آزاد خطے میں صرف ایک انٹر کالج اور چند سکولز تھے ۔پونچھ ریاست میں ایک ہائی سکول تھا۔ چالیس کی دہائی میں عوامی تحریک کے نتیجے میں چند مزید ادارے دیے گئے۔ باغ اور پونچھ سے راولپنڈی جانے کے لیے کوہالہ اور کہوٹہ تک پیدل سفر کرنا پڑتا تھا ۔ مہاراجہ کی خچروں کے لیے گھاس کٹائی کی بیگار لی جاتی تھی ۔ناروا ٹیکسوں کا بوجھ الگ تھا۔رسل ورسائل کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے ۔پنڈی سرینگر واحد پختہ سڑک تھی لیکن آزادی کے بعد نظام ریاست استوارہوا جس میں بے پنا ہ اصلاح احوال کی گنجائش موجود ہے ۔تعلیمی اداروں اور یونیرسٹیز کی تعداد مقبوضہ کشمیر سے زیادہ ہے ‘ سڑکیں ‘بجلی اورسوشل انفراسٹریکچر بہت بہتر ہے۔ پانچ ہزار کلومیٹر سے زائد پختہ سڑکیں اور بارہ ہزار کلو میٹر رابطہ سڑ کیں موجود ہیں ۔بھارتی اعدا شمار کے مطابق مقبوضہ ریاست کی فی کس آمدنی کم ترین سطح پر ہے ۔اس لیے کہ وہا ں کی زراعت اور کاروباری مواقع بھارت نے تباہ کرئیے ہیں ۔مجاہدین اور حریت پسندوں کی چراہ گاہیں اوراہم زرعی رقبے ضبط کیے جارہے ہیں ۔کشمیری نوجوانوں کو پاسپورٹ تک کی بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے ۔پاکستانی اداروں کے ڈگری ہولڈرز کی ڈگریاں ضبط کردی گئیں ہیں ۔ پوری مقبوضہ ریاست سے محض چند ہزار افراد ہی سمندر پار جاسکے ہیں ۔پا سپورٹ حاصل کرنا کشمیریوں کے لیے نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ ترکی اور یورپ میں زیر تعلیم نوجوان بھارتی پالیسی کے خلاف ایک ٹویٹ بھی کر دیں تو ان کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے جاتے ہیں ۔
آزاد کشمیر کے لاکھوں افراد برطانیہ ‘یورپ ‘امریکہ ‘مشرق وسطی اور مشرق بعید میں برسر روزگار ہیں جو خطے میں خوشحالی کا ذریعہ ہیں جس کے نتیجے میں آزاد خطے کی فی کس آمدنی دیگر صوبوں سے زیادہ ہے ۔مقبوضہ کشمیر بنک میں ہزاروں نوجوان باروزگارتھے جسے مودی حکومت نے قبضہ میں لینے کے بعد سب کو فارغ کردیا ہے ۔کشمیری مسلمان تو خاص ہدف ہیں ‘لیکن ہندوستانی مسلمانوں کا جینا بھی د وبھر کر دیا گیا ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ کے جج کی رپورٹ جو سچر کمیشن کے نام سے معروف ہے ‘کی رو سے بھارتی مسلمانوں کی وفاقی سروسز میں نمائندگی دوفیصد سے بھی کم ہے۔ حالانکہ آبادی کا تنا سب سولہ فیصد کے قریب ہے ۔دفاعی سروسز میں تو نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ پاکستان میں کشمیری کمیونٹی گونا گوں مراعات کی حامل ہے ۔ہمارے مہاجرین قومی اسمبلی ‘سینیٹ ‘صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیںاورریاستی نظام کا الگ سے حصہ ہیں ۔فوج میں پنجاب ‘خیبر پختون خواہ کے بعد آزاد کشمیر کی نمائندگی ہے ۔تین اور چار ستارہ جنرل کشمیر سے بھی رہے ہیں اور آج بھی موجودہیں جو فارن سروسز اور کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ۔ راولپنڈی اسلام آباد میں سنٹورس جیسی آسمان کو چھوتی عمارات اور بڑے بڑے تجارتی مراکز اور پلازے کشمیریوں کے ہیں ‘بلکہ بقول سید علی گیلانی شہید ہم پا کستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے ۔
پا کستان بر صغیر کی پوری امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے ۔بدقسمتی سے پا کستان کے خود غرض سیاستد انوں اور طالع آزما جنرلز اس کی حفا ظت کرنے میں نا کام رہے اور ملک دو لخت ہو گیا ۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہو ں اگر شیخ عبداللہ بے تدبیری نہ کرتے تو جموں کشمیر پا کستان کے سر کا تاج ہوتا اور شیخ صاحب اور چوہدری غلام عباس صاحب قائد اعظم کے پورے پاکستان کو قیادت فراہم کرتے ۔یو ں برصغیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔پا کستان جس قیادت کے بحرن سے د و چار ہے اسے کشمیری ہی سنبھال سکتے ہیں اور عظیم تر امت مسلمہ کی تعمیر میں کردار ادا کر سکتے ہیں جس کا خواب ایک عظیم کشمیری سپوت علامہ اقبال نے دیکھا تھا ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں سامان تنگی داماں بھی تھا
بہر حال تحریک آزادی کے تناظر میں بیس کیمپ کو حقیقی بیس کیمپ بنا نا اور اسلام کا حقیقی عادلانہ معاشرہ قائم کرنا ہوگا ‘جہاں عدل اور میرٹ کی با لا دستی ہو ‘ تعصبات اور قبیلائی ازم سے نکلنا ہو گا‘ شفاف اور آزادانہ انتخابات کے ذریعے سرمائے اور ایجنسیوں کے اثر سے پا ک اجلے لوگوں کے انتخاب کو یقینی بنانا ہو گا ‘نیز آزاد خطے اور گلگت بلتستان کو آئینی اور وسائل کے اعتبا ر سے باوسائل بنانا ہوگا ۔بلدیاتی نظام کو باوسائل اور با اختیار بنا نا ہوگا ۔ لا کھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باروز گار بنانے کے لیے لا ئحہ عمل دینا ہو گا۔ حکومتی اخراجات میں کمی اور وسائل میں مزید اضافہ کرتے ہوئے تعمیر اور ترقی کے یکسا ں مواقع پیدا کرنا ہو ں گے ۔عدالتی اور بیوروکریسی کے نظام کی اصلاح کرنا ہوگی تاکہ لوگوںکو بروقت انصاف ملے اور ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔سفارتی ریلیف اور مزاحمت کے ہر محاذ پر کشمیریوں کی پشتیبانی کا حق ادا کرنا ہوگا نیز پاکستان میں جاری بدمزہ صورت حال کا تدارک کرنا ہو گا ۔بھارت کی مثال پیش کرنا خوشگوار عمل نہ ہے لیکن وہا ں حال ہی میں انتخابات ہوئے ۔تما م جماعتوں نے نتائج تسلیم کیے ۔ستر کروڑ ووٹرز نے ووٹ ڈالے کہیں دھاندلی کا الزام نہ لگا ۔پا کستان میں فروری کے انتخابات میں جو کھلواڑ ہوا ‘اس کے نتیجے میں ساری دنیا میں بدنا می ہوئی فارم ۵۴ اور فارم ۷۴ کی حکومت سازی مذاق بن گئی۔گن پوائنٹ پر ممبران پارلیمنٹ سے ووٹ حاصل کرتے ہوئے اسلام عدل اور جمہوریت سے شدید بے وفائی کی گئی ۔گزشتہ انتخابات پر بھی اعترا ضات وارد ہوئے اور نظام متنازعہ رہا ۔اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے ۔قومی قائدین اور ادارے ما ضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی استغفار کریں اور آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عزم کریں نیز محض سیاسی اور سفارتی حمایت سے آگے بڑھ کر بطور فریق تحریک کشمیر کی مزاحمت کے جملہ محاذوں پر پشتیبانی کریں اور سابق سپہ سالار کے مشکوک کردار کے حوالے سے ایک اعلی سطحی جو ڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ تمام معاملات کی چھان بین کرتے ہوئے حقائق سامنے لائے جائیں ان اقدامات کے نتیجے میں کشمیریوں کا اعتما د بحال ہوگااور پا کستان سے وابستگی پختہ تر ہوگی۔