دینی مدارس کی رجسٹریشن کا تنازع کیا ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ’ناراض‘ ہیں ۔۔۔ تحریر : فرحت جاوید

اکتوبر 2024 کے آخری ہفتے میں جب پاکستان کی پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تو اُس موقع پر جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ’دینی حلقوں کے دو اہم مطالبات‘ پارلیمان سے منظور کروانے پر ملک کے متعدد مذہبی حلقوں اور گروہوں کی جانب سے تحسین پیش کی گئی۔

اُن دو مطالبات میں ایک تو پاکستان سے سود کے نظام کا بتدریج خاتمہ تھا جبکہ دوسرا اہم مطالبہ ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائیٹیز ایکٹ 1860کے ماتحت لانا تھا۔

تاہم دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل (سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024) جب پارلیمان سے منظوری کے بعد فائنل منظوری کے لیے ایوانِ صدر پہنچا تو صدر آصف علی زرداری نے اس کے مسودے پر اعتراض لگا کر اسے واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔

اور یہیں سے اس معاملے کی ابتدا ہوئی جس کے پس منظر میں جے یو آئی ف کے چند رہنماؤں کی جانب سے گذشتہ دنوں ’مطالبات کی منظوری کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ‘ کی بات کی گئی جبکہ گذشتہ روز (نو دسمبر) کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مولانا نے حکمراں اتحاد پر الزام عائد کیا کہ وہ ’علما کو تقسیم کرنے کی سازش‘ پر عمل پیرا ہے۔

مولانا حالیہ دنوں میں یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت حکومت کی جانب سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات میں مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔

یہاں اہم سوالات یہ ہیں کہ آخر دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہے کیا؟ نئے ترمیمی بِل میں رجسٹریشن سے متعلق کیا بات کی گئی ہے اور آخر اس معاملے نے حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمان کو حکمراں اتحاد کے سامنے کیوں کھڑا کر دیا ہے؟

مدارس کی رجسٹریشن کا موجودہ طریقہ کار کیا ہے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہمیشہ سے ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ ماضی میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدارس کی رجسٹریشن ’سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860‘ کے تحت ہوتی تھی، اور مدارس کی انتظامیہ کو اس کام کے لیے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر جانا پڑتا تھا۔

ماہرین کے مطابق رجسٹریشن کا کوئی مرکزی نظام نہ ہونے کے سبب نہ تو مدارس کے نصاب پر کوئی حکومتی کنٹرول تھا اور نہ ہی اُن کو ملنے والی فنڈنگ پر کوئی نظر۔

جنرل مشرف کے دور اقتدار میں جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تو مدارس کے نظام میں اصلاحات پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ تاہم حکومت کی جانب سے پیش کردہ تجاویز ہمیشہ تنازعات کا شکار رہیں۔ اس دور میں جہاں ایک جانب مجوزہ اصلاحات کو ’مذہبی معاملات میں مداخلت اور مدارس پر حکومتی کنٹرول‘ کی کوشش قرار دیا گیا تو دوسری جانب حکومت نے انھیں ’پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ناگزیر‘ قرار دیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سبوخ سید کہتے ہیں کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام مدارس میں تو شدت پسندی یا انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دی گئی تاہم مدارس کی ایک بڑی تعداد ایسی رہی ہے جو انتہاپسندانہ سوچ اور مذہبی فرقہ واریت کی سوچ کو پروان چڑھاتے رہے ہیں۔‘

خیال رہے کہ تحریک طالبان، القاعدہ اور ان جیسے دیگر شدت پسند گروہوں کے کئی اراکین پاکستان میں قائم دینی مدارس سے منسلک رہے ہیں اور اس کے بارے میں رپورٹس بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔

انہی وجوہات کی بنیاد پر پہلے سابق صدر جنرل مشرف، اُن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت اور بعدازاں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ترتیب دیے گئے نیشنل ایکشن پلان میں دینی مدارس کے نظام میں إصلاحات کو ناگزیر قرار دیا گیا۔

اور بالآخر اکتوبر 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں حکومت نے وزارت داخلہ، سیکیورٹی ایجنسیوں، صوبوں، اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ پانچ سال سے زائد طویل مشاورت کے بعد دینی مدارس کو ’تعلیمی ادارے‘ سمجھتے ہوئے انھیں محکمہ تعلیم کے تحت ریگولیٹ کرنے کا چند مذہبی گروہوں کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔

سنہ 2019 میں پی ٹی آئی حکومت کے اس فیصلے کا چاروں مرکزی اسلامی مسالک کی نمائندہ تنظیموں (بورڈز) نے خیر مقدم کیا۔ اُسی کے تحت رجسٹریشن کے لیے وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا جس کا نام ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن ہے اور اس کی سربراہی اِس وقت سابق میجر جنرل غلام قمر کر رہے ہیں۔

محکمہ ریلیجیس ایجوکیشن کے افسران کے مطابق اس ڈائریکٹوریٹ کے تحت مدارس تعلیمی ادارے سمجھتے ہوئے ان کی رجسٹریشن بھی وزارت تعلیم میں ہوتی ہے، اس کے علاوہ ان کا سالانہ آڈٹ ہو تا ہے اور ان کے نصاب میں مرحلہ وار جدید علوم کو بھی شامل کیا جا رہا ہے، اس محکمے کے تحت مدارس میں طلبا کو گرانٹس بھی دی جاتی ہیں جبکہ غیرملکی طلبا کو ویزا ایشو کیا جاتے ہیں اور مدارس کو بینک اکاونٹس کھولنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔

اس ڈائریکٹوریٹ کے ملک بھر میں 16 دفاتر قائم ہیں جہاں مدارس کی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 18 ہزار مدارس اسی ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے رجسٹرڈ ہیں، جن میں ان مدارس کے مطابق 20 لاکھ سے زائد طلبا زیرتعلیم ہیں۔

یاد رہے کہ اُس وقت پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ شدید سیاسی اختلافات کی وجہ سے جمیعت علمائے اسلام (ف) سے منسلک مدارس نے مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت رکھنے اور مذہبی مدارس میں عمومی تعلیم شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان سمیت کئی دیگر مسالک کے مدارس ان نئے نظام کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اور اب وہ ایک بار پھر سوسائیٹز ایکٹ 1860کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کروانا چاہتے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہو رہا تھا، تاہم اس کے ساتھ انھوں نے ایک ترمیم بھی تجویز کی ہے۔

سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کیا ہے اور ماضی میں مدارس کی رجسٹریشن کا کیا نظام رائج تھا؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ماضی میں مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نظامِ تعلیم سے متعلق واضح قوانین موجود نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ کئی مدارس خود کو رجسٹر ہی نہیں کرواتے تھے۔

2019 سے قبل ملک میں مدارس کی رجسٹریشن، سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت کی جا رہی تھی۔ یہ ایکٹ برطانوی دور میں نافذ ہوا تھا اور اس کا مقصد تعلیم، سائنس، فنون، ثقافت، فلاح و بہبود، مذہب، خیرات، اور دیگر غیر تجارتی سرگرمیوں کے لیے تنظیموں کے قیام کی اجازت اور انھیں قانونی حیثیت دینا تھا۔ یہ ایکٹ آج بھی پاکستان میں نافذ ہے اور اس کے تحت فلاحی اور غیر منافع بخش ادارے اپنی رجسٹریشن کروا کر قانونی طور پر تسلیم شدہ حیثیت حاصل کرتے ہیں۔

اس ایکٹ کے مطابق کم از کم سات یا اس سے زیادہ افراد کسی مشترکہ مقصد کے لیے تنظیم بنا سکتے ہیں اور اسے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ رجسٹریشن کے بعد یہ تنظیم ایک علیحدہ قانونی وجود اختیار کر لیتی ہے۔ ایسی تنظیم کی رجسٹریشن اور نگرانی کے عمل کو مقامی حکومتوں کے تحت چلایا جاتا ہے اور تنظیموں کو اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت مدارس کے بانی افراد کو تنظیم کے قوانین، مقاصد، اور ممبران کی تفصیلات کے ساتھ متعلقہ ڈپٹی کمشنر یا رجسٹرار کے پاس درخواست جمع کروانی ہوتی تھی۔ رجسٹریشن کے بعد مدرسہ یا مدارس کو قانونی تحفظ حاصل ہو جاتا، اور وہ اپنے نام پر جائیداد خرید سکتے تھے، معاہدے کر سکتے تھے، اور عدالت میں مقدمہ لڑ سکتے تھے۔

اگرچہ اس قانون کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو اپنے مالی معاملات کا سالانہ آڈٹ کروانا ہوتا ہے۔ تاہم متعلقہ معاملات پر عبور رکھنے والے ماہرین کے مطابق اس قانون کے تحت رجسٹریشن کے باوجود ان مدارس کے نصاب، مالی معاملات، یا سرگرمیوں پر کوئی مؤثر نگرانی نہیں ہوتی تھی۔ ‘اسی وجہ سے کئی مدارس متنازع سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور حکومت پر ان کے لیے سخت قوانین بنانے کا دباؤ بڑھتا رہا۔’

اب نئے ترمیمی بل میں کیا ہے؟

یہ بل 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے معاہدے کا حصہ تھا، جو اکتوبر 2024 میں جمیعت علمائے اسلام (ف) اور حکومت کے درمیان طے پایا تھا۔ سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 دراصل مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 میں ہی ایک ترمیم ہے۔

سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے مطابق دینی مدارس کی رجسٹریشن کرنے کا ذمہ دار متعلقہ ڈپٹی کمشنرز ہونے چاہییں ناکہ وزارت تعلیم۔

نئے ترمیمی بل کی بعض دیگر شقوں کے مطابق:

  • اگر کسی مدرسے کے ایک سے زیادہ کیمپس ہوں تو انھیں صرف ایک رجسٹریشن کی ضرورت ہو گی (نہ کہ ہر کیمپس کے لیے علیحدہ رجسٹریشن)
  • ہر مدرسے کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کروانی ہو گی
  • ہر مدرسے کے کھاتوں کا آڈٹ ایک آڈیٹر سے کروانا اور آڈٹ رپورٹ رجسٹرار آفس کو جمع کروانا لازمی ہو گا
  • کوئی بھی مدرسہ ایسا مواد نہیں پڑھا سکتا یا شائع نہیں کر سکتا جو شدت پسندی، فرقہ واریت، یا مذہبی نفرت کو فروغ دے

ترمیمی بل کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اب مولانا فضل الرحمان کو اس پر کیا اعتراض ہے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہReuters

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کامران مرتضی کہتے ہیں کہ ماضی میں سوسائیٹز ایکٹ کے تحت مدارس کو قانونی حیثیت تو مل جاتی تھی مگر ان کے انتظامی امور کی نگرانی کے لیے کوئی مربوط نظام نہ ہونے کے سبب مدارس کو متعدد مسائل کا سامنا رہتا تھا۔

تو یہ مسائل کیا تھے، اس کا جواب دیتے ہوئے سینیئر صحافی سبوخ سید نے بتایا کہ چونکہ اس ایکٹ میں مدارس کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے کوئی وضاحت موجود نہیں تھی، اس لیے مختلف وزارتیں اور محکمے مدارس کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے اور اپنی مرضی کے مطابق جوابدہ بناتے۔

’کبھی وزارت داخلہ تحقیقات کے لیے آ جاتی، کبھی وزارت تعلیم نصاب کے حوالے سے دخل اندازی کرتی، اور چونکہ یہ ایکٹ وزارت صنعت و تجارت کے دائرہ کار میں آتا ہے، وہ بھی مدارس کو قانونی اور مالی معاملات پر تنگ کرتے۔‘

سنہ 2019 میں حکومت نے مدارس کے لیے ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا تاکہ اُن کی رجسٹریشن اور نگرانی کا منظم نظام بنایا جا سکے تاہم مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھیوں کو اس نئے ڈائریکٹوریٹ کے تحت رجسٹریشن پر اعتراض ہے۔

سبوخ سید کے مطابق مدارس کا یہ مؤقف ہے کہ نئے نظام کے تحت رجسٹر ہونے سے ان کی خودمختاری ختم ہو جائے گی۔ ’انھیں خدشہ ہے کہ حکومت ان پر نصاب کے حوالے سے دباؤ ڈالے گی اور اپنی مرضی کا تعلیمی مواد نافذ کرے گی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت اپنے تعلیمی ادارے ٹھیک سے نہیں سنبھال پا رہی، تو مدارس پر کیسے قابو پا سکے گی؟ اس کے علاقہ مدارس کے یہ منتظمین سمجھتے ہیں کہ ان کے موجودہ ڈونرز (عطیہ کرنے والے) حکومتی کنٹرول کے بعد انھیں چندہ دینا بند کر دیں گے۔‘

لیکن دوسری طرف ہزاروں مدارس جو اس نئے نظام کے تحت رجسٹر ہو چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ انھیں اس سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ ان کے بینک اکاؤنٹس فعال ہیں، اور حکومتی گرانٹس کی بدولت ان کے تعلیمی معیار میں بہتری آئی ہے۔ ان مدارس کے مطابق نئے ڈائریکٹوریٹ کے تحت ان کے بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

لیکن مولانا فضل الرحمان اور ان کے حمایت یافتہ پانچ مدارس بورڈز اس نئے نظام کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔

کامران مرتضیٰ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے 2019 میں ایک ریٹائرڈ جنرل کی سربراہی میں یہ نیا ڈائریکٹوریٹ بنایا، جسے وہ ایک ’حکومتی منصوبہ‘ قرار دیتے ہیں۔

اُن کے مطابق ’مدارس قانون سازی کے ذریعے رجسٹریشن، آڈٹ، نصاب میں اضافے، اور اساتذہ و طلبہ کے کوائف کی فراہمی پر تیار ہیں، لیکن وہ کسی بھی حکومتی ادارے کے ماتحت ہونے کو اپنی آزادی پر سمجھوتہ سمجھتے ہیں۔‘

اسی ’خودمختاری اور آزادی‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سبوخ سید کا دعویٰ تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر بورڈز مدارس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں اور اُن کے بقول اگر کوئی دوسرا نظام آتا ہے تو یہ مدارس کے لیے اختیار کی تقسیم کا باعث بن سکتا ہے، جو اُن کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتا ہے۔

’دنیا بھر میں ہمارے ملک کے مدارس کے نصاب کو انتہاپسندانہ رجحانات کے فروغ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اور یہی چیز مدارس کے روایتی رہنماؤں کے لیے پریشان کن ہے۔ ان مدارس میں بچوں کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو موجودہ دور کی ضروریات سے میل نہیں کھاتی اور انھیں کئی دہائیاں پیچھے لے جاتی ہے۔‘

مولانا فضل الرحمان کے مدارس

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جمعیت علمائے اسلام (ف) سے وابستہ بہت سے دینی مدارس پاکستان کے طول و عرض میں قائم ہیں۔ اِن مدارس کا تعلق زیادہ تر وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ہے جو دیوبندی مکتبہ فکر کے سب سے بڑے بورڈز میں شامل ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا اپنا مدرسہ، مدرسہ مفتاح العلوم، ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے، جبکہ جامعہ قاسم العلوم ملتان اور جامعہ امداد العلوم جیسے دیگر مدارس بھی جے یو آئی کے نظریاتی حلقے سے وابستہ ہیں۔ ان مدارس میں دیوبندی مکتبہ فکر کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔

یہ مدارس خاص طور پر خیبرپختونخوا، بلوچستان، اور جنوبی پنجاب میں زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں اور مولانا فضل الرحمان اور اُن کی جماعت کے رہنماؤں کا اُن پر گہرا اثر و رسوخ ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے تحت ملک بھر میں ہزاروں مدارس رجسٹرڈ ہیں، جن میں لاکھوں طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

بشکریہ: بی بی سی اردو