سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے حساس اداروں میں سیاسی سیل ختم کرنے کے حوالہ سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے رپورٹ طلب

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے حساس اداروں میں سیاسی سیل ختم کرنے کے حوالہ سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس سے رپورٹ طلب کرلی۔ آئینی بینچ نے ہدایت کی ہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے بیان جمع کروایا جائے۔

جبکہ ایڈیشل اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کویقین دہانی کروائی  ہے کہ اصغرخان کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے حساس اداروں میں سیاسی سیل ختم کردیا گیا ہے ۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر سیاسی سیل ختم کردیئے گئے ہیں تواس کامطلب ہے سیاسی سیل تھے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تین ایجنسیز کے سربراہوں کی جانب سے بیان حلفی جمع کروایا گیا کہ سیاسی سیل ختم کردیا،

سپریم کورٹ نے کہا کہ پیچھے ہٹ جائو۔اگر پہلے بیان حلفی نہیں لیا تو حساس اداروں کے سربراہان سے   بیان حلفی لے لیں۔ دو، چار لوکھ روپے کے پیچھے جارہے ہیںیہاں پر بات اورہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ہائی کورٹ جائیں۔ اگردرخواست گزارفوت ہوگیا ہے تودرخواست گزار کے خلاف کاروائی کاتونہیں کہا گیا تھا، وفاقی حکومت نے عدالتی احکامات پر کیا عمل کیا۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کن بینکوں اوربینک اکائونٹس سے پیسے دیئے گئے وہ آپ کو پتاتھا۔

کیا پیسے ریکور کرلئے جن لوگوں کو دیئے تھے، بڑے بڑے نام اس میں ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل7رکنی بینچ نے منگل کے روزایئرمارشل (ر)اصغرخان مرحوم کی جانب سے جنرل (ر)مرزا اسلم بیگ اوردیگر کے خلاف سیاستداوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کے معاملہ پر 1996میں دائر کردہ درخواست پر سماعت کی۔

عدالت کی جانب سے درخواست پراٹارنی جنرل آف پاکستان، ڈی جی ایف آئی اے ، اصغر خان کے لواحقین اوردیگر کونوٹسز جاری کئے گئے تھے۔وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس پیش ہوئے جبکہ ایئر مارشل (ر)اصغر خان کے لواحقین کی جانب سے سلمان اکرم راجہ ویڈیو لنک کے ذریعے  سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے پیش ہوئے۔ دوران سماعت، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی نے انکوائری بند کردی تھی۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ کیا پیسے ریکور کرلئے جن لوگوں کو دیئے تھے، بڑے بڑے نام اس میں ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ہائی کورٹ جائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہ بتائیں کہ کیا ہم اپنے فیصلے پر خود عملدرآمد کروائیں گے، فیصلے پر ہائی کورٹ عملدرآمد کروائے گی۔ملک جاوید اقبال وینس کاکہنا تھا کہ سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنے کے حوالہ سے الزام مستند نہیں، بینک 10سال سے پرانا ریکارڈ اپنے پاس نہیں رکھتے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارفوت ہو گیا ہے۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگردرخواست گزارفوت ہوگیا ہے تودرخواست گزار کے خلاف کاروائی کاتونہیں کہا گیا تھا، وفاقی حکومت نے عدالتی احکامات پر کیا عمل کیا۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حساس اداروں میں سیاسی سیل تھا، جن لوگوں نے 1990 کے الیکشن میں ساز باز کیا ان کے خلاف کیا ایکشن ہوا، اسلم بیگ، اسد درانی اور یونس حبیب نے الیکشن میں ساز باز کا اعتراف کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف آئی اے کا جو کام کرنے کا تھا کیا وہ کیا گیا، کیا حساس اداروں کے سربراہان نے سیاسی سیل کے خاتمہ کا بیان حلفی دیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس اداروں کا آئین و قانون کے تحت سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر پہلے بیان حلفی نہیں لیا تو حساس اداروں کے سربراہان سے آج بیان حلفی لے لیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ دو، چار لوکھ روپے کے پیچھے جارہے ہیںیہاں پر بات اورہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جوکام آپ کے کرنے کے ہیں وہ توکریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا تین ایجنسیز کے سربراہوں کی جانب سے بیان حلفی جمع کروایا گیا کہ سیاسی سیل ختم کردیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ پیچھے ہٹ جائو۔ اس پر ملک جاوید اقبال وینس کاکہنا تھا کہ سیاسی سیل ختم کردیئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاآج کی تاریخ میں بیان حلفی دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔ ملک جاوید اقبال وینس کاکہنا تھا کہ ہم فیصلے پر من وعن عمل کررہے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کے بیان لگائے ہیں۔ اس پر ملک جاوید اقبال وینس کاکہنا تھا کہ لگائے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کن بینکوں اوربینک ااکائونٹس سے پیسے دیئے گئے وہ آپ کو پتاتھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جس وقت سپریم کورٹ کا اصغر خان کیس فیصلہ آیا تھا اسی وقت حساس اداروں میں سیاسی سیل کو ختم کر دیا گیا تھا۔اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے حساس اداروں میں سیاسی سیل تھے۔

جسٹس امین الدین خان کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے بیان جمع کروائیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بیان دے دیں کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا ہے۔ آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔