کسی فرد کا اپنی واضح جنس کو تبدیل کرنا ناجائز ہے، البتہ غیر واضح جنس کا ابہام دور کر کے تعیین جنس جائز ہے۔ ڈاکٹر علامہ راغب حسین نعیمی

اسلام آباد(صباح نیوز)اسلامی نظریاتی کونسل میں ہونے والے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاہے کہ کسی فرد کا اپنی واضح جنس کو تبدیل کرنا ناجائز ہے، البتہ غیر واضح جنس کا ابہام دور کر کے تعیین جنس جائز ہے۔خنثی افراد کے لیے انٹرسیکس کا لفظ استعمال کیا جائے نہ کہ ٹرانسجینڈر کا۔مرد کی عورت اور عورت کی مرد کی مشابہت اختیار کرنا ناجائز ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل اور برتھ ڈیفیکٹ فانڈیشن کے زیرِ اہتمام میٹنگ ہال، اسلامی نظریاتی کونسل میں خنثی کے جنس کے تعین کے حوالہ سے آگاہی اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کی۔ اجلاس سے ڈاکٹر افضل شیخ، ڈاکٹر انصر جاوید نے خنثی کے تعین جنس کے علاج کے بارے آگاہی دی۔

ڈاکٹرافضل شیخ،چیف سرجن برتھ ڈیفیٹ فاؤنڈیشن نے حاضرین کو اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی،اور آگاہ کیا کہ طبی لحاظ سے ہر انسان یا تو مرد ہوتا ہے یا عورت ہوتا ہے۔جن افراد میں پیدائشی طور پرکوئی نقص ہوجیسا ہ زنانہ و مردانہ علامات دونوں موجود ہوں یاکوئی ایسی صورت ہو کہ کچھ بھی واضح نا ہو تو طبی نکتہ نظر سے ایسے افراد کا چیک اپ کرکے نا صرف یہ بتایا جا سکتا ہے کہ یہ مردانہ یا زنانہ علامات میں سے کس کا حامل ہے،بلکہ بذریعہ سرجری ان کی غالب جنس کا تعین بھی یا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر انصر جاوید سائیکالوجسٹ چیئرمین برتھ ڈیفیکٹ فاونڈیشن  اور محترمہ طاہرہ جاوید چوہدری ایچ او ڈی برتھ ڈیفیکٹ فاونڈیشن  نے پیدائشی طور پر مختلف نقائص و بیماریوں کا ذکر کیا اور ٹرانس جینڈر اور خنثی(intersex) کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

اجلاس کے شرکا ء کو آگاہ کیا گیا کہ ٹرانس جینڈر فرد پیدائشی طور مکمل صحت یاب پیدا ہوتا ہے محض دماغ میں ایک مادہ (gender dysphonia)پیدا ہونے کی وجہ سے وہ خود کو مخالف جنس کا فرد تصور کرنے لگتا ہے،ایسے افراد کا نفسیاتی طور پر علاج کیا جاتا ہے جبکہ خنثی افراد پیدائشی طور پر کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اس کا علاج سرجری کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی ونسل بھی اپنی سفارش میں واضح کر چکی ہے کہ کسی فرد کو اپنی واضح جنس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جنس میں ابہام ہو تو علاج و سرجری کے ذریعے اس فرد کی جنس کی تعیین کی جا سکتی ہے۔

ٹرانس جینڈر کی اصطلاح ایک غلط اصطلاح ہے،اس کا استعمال نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے ضمن میں ایسے افراد بھی شامل کئے جاتے ہیں جو حقیقی مرد یا حقیقی عورت ہوتے ہیں لیکن محض باطنی احساسات کی بنیاد پر خود کو مخالف جنس کا فرد تصورکرتے ہیں۔ ایسے مخصوص افراد جن میں پیدائشی طور پر کوئی نقص ہو،ان ے لئے خنثی(intersex) کا لفظ استعمال کیا جائے۔اپنی جنس کی از خود تعین (self-perceived identity) کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر فرد ی جنس پیدائشی طور اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ ہوتی ہے،لہذا محض اپنے باطنی احساسات کی بنیاد پر اس پیدائشی جنس کے برعکس اپنی شناخت بیان کرنا شرعی احکام سے متصادم ہے۔اور یہ ای ذہنی مرض کا شاخسانہ ہے جس کو جینڈر ڈسفوریا (gender dysphoria)کہا جاتا ہے۔

طبی ماہرین اس مرض کا علاج کر سکتے ہیں۔ علامہ طاہر محمود اشرفی، علامہ افتخار حسین نقوی نے  اور ڈاکٹر قبلہ ایاز، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل  نے بھی گفتگو کی۔ دیگر شرکا میں  مفتی ضمیر احمد ساجد ،مولانا تنویر احمد علوی، ڈاکٹر انعام اللہ، ڈاکٹر غلام دستگیر شاہین اور مفتی غلام ماجد بھی   شامل تھے۔اجلاس میں تجویز کیا گیا کہ ایسی ذہنی مرض کے لئے مل مختلف شہروں میں باقاعدہ ہسپتال یا ہسپتالوں میں بحالی سینٹرز(rehabilitation center ) قائم کئے جانے چاہئے۔ایسے مریض افراد یا پیدائشی طور پر ناقص افراد و گھر سے نالا جانا یا ان پر تشدد کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔

اس بابت سخت قوانین بنائے جائیں اور والدین کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسے افراد و خاندان میں شریک رکھیں اور ان کے علاج و معالجہ کے لئے کاوش کریں۔صنف اور جنس کو اپنے زعم کے مطابق الگ الگ کرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے،شرعی ماہرین کی طرح طبی ماہرین بھی ان دونوں اصطلاحات میں فرق کے قائل نہیں ہیں۔اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی مرد و عورت کی اور کسی عورت و مرد کی مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت ہے،لہذا جو لوگ ایسا تشبہ اختیار کرتے ہیں وہ شرعی لحاظ سے ناجائز کام کے مرتب ہیں۔اس حوالے سے عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔