اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے ریلوے گالف کلب کی لیز کے حوالہ سے وفاقی حکومت سے 3ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ہرادارہ اپنا کام نہ کرے تو پھر کسی نے توجگہ پُرکرنا ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کے لیئے آئین میں ہائی کورٹ کاراستہ دیا گیا ہے۔ زمینیں واگزار کروانے کے حوالہ سے ریلوے حکام قانونی راستہ اپنائیں کوئی نہیں مانتا تو عدالت جائیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک نئی چیز شروع ہوگئی ازخودنوٹس کے بعد عملدرآمد بینچ بن گیا، ہم اس کیس میں بطور عملدرآمد بینچ کام کررہے ہیں۔ اگر پہلے سے کم بولی ملی ہے تویہ کوئی عقلمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا، دوبارہ بولی میں جانا چاہیئے۔ جوچیز ہزارروپے میں بک رہی تھی وہ اگر 800میں بکے توپھر سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس لینے کامقصد ہی ختم ہوگیا۔
سپریم کورٹ کوئی ریکوری ایجنسی نہیں، ریلوے قانون پر عمل کرے، ریلوے کے کتنے افسران کے خلاف کاروائی کی گئی جنہوں نے سرکاری زمین پر آبادیاں بنوائیں، کیا ریلوے نے قانون کے مطابق جگہ خالی کرنے کے لئے قابضین کو نوٹس دیا، یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ریلوے حکام کوبلاکرکہے کہ آئیں ہم آپ کوزمین واگزار کرواکردیتے ہیں۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی ، جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی آئینی بینچ نے آئین کے آریکل 184-3کے تحت گالف کلب کی لیز کے معاملہ پر لئے گئے ازخود نوٹس میں 28جون2019کوجاری حکم پر عملدآمد اورریلوے کے دیگر معاملات کے حوالہ سے دائر 22درخواستوں پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے جبکہ دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر، حافظ احسان احمد کھوکھر،حارث عظمت ایڈووکیٹ، فیصل فرید چوہدری ایڈووکیٹ اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔ جبکہ ریلوے حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھ اکہ معاملہ 2019سے زیر التوا ہے ہوسکتا ہے کہ بولی سے زیادہ نقصان ہو گیا ہو۔ ایڈیشل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ 11کمپنیوں نے بولی دی تھی تاہم ان میں کوئی بھی نہیں آیا جس کے بعد اسے منسوخ کردیا گیااوراب دوبارہ بولی میں ہاشوانی گروپ نے بولی دی ہے اوردو، تین ہفتے میں بولی کامعاملہ حتمی شکل اختیار کرجائے گا ۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر پہلے سے کم بولی ملی ہے تویہ کوئی عقلمدانہ فیصلہ نہیں ہو گا، دوبارہ بولی میں جانا چاہیئے۔ جسٹس امین الدین خان کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مئوکل کو بولی میں حصہ لینا چاہیئے تھا۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ ہم سے منصوبہ واپس لیا یگا تھا جس کے خلاف ہماری نظرثانی درخواست زلتواہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا پہلے بولی دہندگان کو دوبارہ بولی آفرکرسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جوچیز ہزارروپے میں بک رہی تھی وہ اگر 800میں بکے توپھر سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس لینے کامقصد ہی ختم ہوگیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ریلوے مسابقتی بولی میں بھی جاسکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ایک نئی چیز شروع ہوگئی ازخودنوٹس کے بعد عملدرآمد بینچ بن گیا، ہم اس کیس میں بطور عملدرآمد بینچ کام کررہے ہیں۔ جبکہ بینچ نے پاکستان ریلوے کو 95ملین روپے کانقصان پہنچانے پر نام ای سی ایل میں شامل ہونے والے درخواست گزارمحمد شاہ رخ خان کی درخواست پر بھی سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل کی عمر70سال اور وہ امریکی شہری ہے اور ان کانام 2021میں ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا اورابھی تک وہ باہر نہیں جاسکا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کومحکمانہ آڈٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کاکہا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاریلوے حکام اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 95ملین روپے کامعاملہ ہے، محکمانہ آڈٹ کمیٹی بنائیں۔
چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ تحقیقات کے بعد یہ رقم 95ملین سے کم ہوکر17ملین روپے رہ گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کمیٹی بنادیں یہ نہ ہوکہ لینے کے دینے پڑجائیں۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ دو، تین ہفتے میں سارے کام مکمل ہوجائیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کے لیئے آئین میں ہائی کورٹ کاراستہ دیا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم کوشش کریں گے کہ فریقین کے اطمینان کے مطابق معاملہ حل ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر ہرادارہ اپنا کام نہ کرے تو پھر کسی نے جگہ پُرکرنا ہوتی ہے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم آئندہ سماعت پر حکم جاری کریں گے۔ بینچ نے حکم دیا کہ محکمانہ آڈٹ کمیٹی محمد شاہ رخ خان کے معاملہ کافیصلہ 3ہفتے میں کرے،10روز میں ڈی اے سی اجلاس بلانے کے حوالہ سے شاہ رخ خان کوآگاہ کرے۔ شاہ رخ خان کمیٹی کے سامنے پیش ہوکراپنا مئوقف پیش کریں۔
کیس کی مزید سماعت 4ہفتے بعد کریں گے۔ جبکہ بینچ نے لیفٹیننٹ جنرل (ر)سعید الظفر کی جانب سے سابق وزیر ریلوے اسحاق خان خاکوانی کے خلاف دائردو درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردیں۔ جبکہ بینچ نے ریلوے زمینوں پر قبضہ کے خلاف بھی کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا ریلوے حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہناتھا کہ سپریم کورٹ کوئی ریکوری ایجنسی نہیں، ریلوے قانون پر عمل کرے، ریلوے کے کتنے افسران کے خلاف کاروائی کی گئی جنہوں نے سرکاری زمین پر آبادیاں بنوائیں، کیا ریلوے نے قانون کے مطابق جگہ خالی کرنے کے لئے نوٹس دیا، یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ریلوے حکام کوبلاکرکہے کہ آئیں ہم آپ کوزمین واگزار کرواکردیتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ریلوے حکام قانونی راستہ اپنائیں کوئی نہیں مانتا تو عدالت جائیں۔