اسلام آباد (صباح نیوز) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی مواصلات میں ارکان نے ہائی ویز و موٹرویز پر سپیڈ کی حد بڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ہائی ویز پر 100اور موٹروے پر 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی حد رفتار کم ہے اس کو بڑھایا جائے،حد رفتار چھوٹی گاڑیوں کے لیے کم اور بڑی گاڑیوں کے لیے زیادہ ہونی چاہیے، وفاقی سیکرٹری مواصلات نے کمیٹی کو بتایا کہ ہائی ویز اور موٹرویز پر حد رفتار میں اضافے کے حوالے سے متعلقہ ادارے سے رپورٹ لے کر کمیٹی کو آگاہ کردیں گے کہ حدرفتار بڑھی جاسکتی ہے یا نہیں۔آئی جی موٹروے پولیس نے حدرفتار بڑھنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ حد رفتار کم کرنے کی ضرورت ہے چھوٹی اور مہنگی بڑی گاڑیوں کے لیے الگ الگ حد رفتار نہیں دے سکتے ہیں۔موٹروے پولیس نے ایک سال میں 15.4ارب روپے کے چالان ٹکٹ جاری کئے ۔ہمارا جاری کردہ ٹریفک لائسنس 132 ممالک میں قابل قبول ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی مواصلار کا اجلاس چیئرمین اعجاز حسین جاکھرانی کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس کے حکام نے بریفنگ دی ۔آئی جی موٹروے پولیس سلمان چوہدری نے بتایا کہ1963کلومیٹر کی موٹرویز پاکستان میں موجود ہیں۔271کلومیٹر کی ایکسپریس ویز ہیں ۔2502کلومیٹر پر ہائی ویز پر موڑوے اینڈ ہائی ویز کی پولیس ذمہ دار ہے،9098ملازمین ہیں جبکہ سیکشن 15607ہیں یونیفارم پولیس کی تعداد 6272ہے جبکہ سیکشن تعداد 12019ہے ۔15نومبر 2023 سے 15 نومبر 2024 تک ایک سال میں 15.4ارب روپے کے جرمانے کئے ہیں کل 13.3ملین چالان ٹکٹ جاری کئے ہیں سب سے زیادہ چالان ایکسل لوڈ پر دیئے ہیں۔ ایکسل لوڈ پر 4.16ارب روپے کے جرمانے کئے ہیں کل 3023ایف آئی آر درج کئے ہیں 7لاکھ 5ہزار 21 چالان ٹکٹ جاری کئے ہیں ۔ڈرائیونگ لائسنس اتھارٹی کے تحت اسلام آباد میں دفتر 2014 میں بنایا گیا اب تک 1 لاکھ44ہزار 388لائسنس جاری کئے ہیں ،کوئٹہ میں دفتر بن گیا ہے اگلا دفتر کراچی اور اس کے بعد لاہور میں بنائیں گے ،ہمارا جاری کردہ ٹریفک لائسنس 132 ممالک میں قابل قبول ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ہائی ویز پر سو کلومیٹر فی گھنٹہ بہت کم ہے اس کو بڑھایا جائے۔آئی جی موٹروے پولیس نے کہاکہ یہ سپییڈ زیادہ ہے اس کو بھی کم ہونا چاہیے موٹروے ہر بھی 120کلومیٹر فی گھنٹہ بہت زیادہ ہے اس کو 110کلومیٹر ہونا چاہیے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ چھوٹی گاڑی اور بڑی گاڑی کا بھی فرق ہوتا ہے اس کے حساب سے سپیڈ لمٹ ہونی چاہیے۔آئی جی نے کہاکہ ہم گاڑی کی بنیاد پر فرق نہیں کرسکتے ہیں ۔
سیکرٹری مواصلات نے کہاکہ ہم این 95 کو دیکھ لیتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ یہاں پر سپیڈ کی حد بڑھائی جائے ۔قائمہ کمیٹی برائے مواصلات میں سموگ کے مسلئے زیر بحث آیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ سموگ کا باعث بننے والی گاڑیوں کے خلاف کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سیکرٹری مواصلات نے بتایا کہ گاڑیوں کی فٹنس کاجائزہ لینا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آئی جی موٹروے پولیس نے کہاکہ موٹروے پولیس کی سیکشن تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ہماری تنخوا ہیں کم ہیں جس کی وجہ سے سندھ اور پنجاب سے ڈیپوٹیشن پر لوگ نہیں آرہے ہیں، اگر افسران کی تنخواہیں بڑھ دی جائیں تو 28 کروڑ سالانہ ضرورت ہوگی جو ہم اپنے وسائل سے ادا کریں گے ۔پاکستان پوسٹ کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔وفاقی سیکرٹری مواصلات نے کہاکہ ان کے ملازمین کی تعداد 24 ہزار ہے 9 ارب آمدن ہے اور تنخواہ 17 ارب ہے ،خرچہ 28 ارب سالانہ ہے ۔ڈی جی پاکستان پوسٹ نے کہاکہ پورے پاکستان میں 10 ہزار ڈاک خانے ہیں ان میں سے 2787ڈاک خانے سرکاری ہیں باقی فرنچائز ہیں ۔کل ملازمین کی تعداد 22388ہیں 5816آسامیاں ختم کردی گئیں۔ گائوں میں صرف پاکستان ڈاک کام کررہی ہے باقی کوئی نجی ادارہ کام نہیں کررہاہے ۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے مواصلات گل اصغر نے کہاکہ پوسٹ آفس میں 5 ہزار آسامیاں خالی پڑی ہوئی تھی، جو بھی منسٹر آتا تھا خالی آسامیوں پر اپنوں کو نوازتا تھا وفاقی وزیر مواصلات نے غیر ضروری تمام آسامیوں کو ختم کر دیا ۔وفاقی سیکرٹری نے کہاکہ پوسٹ آفس کا ڈیجیٹائزیشن اور بزنس پلان ای سی سی کو بھجوا دیا ہے،منظوری کے بعد پوسٹ آفس میں جدت لانے پر کام شروع ہو جائے گا،
پوسٹ آفس کی کمرشل پراپرٹیز کو لیز پر دیا جائے گا،اس سال وفاقی حکومت کو پانچ ارب کما کر دینے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔اس وقت پوسٹ آفس سالانہ خرچہ 28 ارب روپے ہے ۔ حاجی جمال شاہ کاکڑ نے کہاہے کہ میرے خیال میں آج کے دور میں اس محکمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حکام نے کہاکہ اس وقت پاکستان پوسٹ آفس کی کسی پراپرٹی پر کوئی قبضہ نہیں، مصطفی کمال نے کہاکہ یہ سفید ہاتھی ہی بن گیا ہے، دو تین ممالک کا موازنہ ہمارے ساتھ رکھیں، ہمیں پتہ تو چلے دنیا میں اور کیا ہورہا ہے،کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پاکستان پوسٹ سے متعلق مزید بریفنگ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ دیگر ممالک میں میں سرکاری ڈاک کا محکمہ کس طرح کام کررہاہے اس کا موازنہ کرکے بتایا جائے ۔