قومی احتساب آرڈیننس 1999کی دفعہ 33ای سپریم کورٹ میں چیلنج، آئینی بینچ میں سماعت

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے قومی احتساب آرڈیننس 1999کی دفعہ 33-Eکی شریح کے حوالہ سے دائر درخواست پراٹارنی جنرل، تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاونت کے لئے طلب کرلیا۔ جبکہ بینچ نے سینئر وکیل خواجہ حارث احمد کوعدالتی معاون مقررکردیا۔

جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگرکرپشن کرنے والا فوت ہوجائے تواُس کے لواحقین سے بھی رقم کی ریکوری کی جائے گی۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ کافیصلہ کوئی صحیفہ تھوڑی ہوتا ہے اس کوہم تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ اگر کسی کوسزادیتے ہیں توفوری طورپر جائیداد بیچ کررقم ریکوکرلیں،6یا9ماہ مزید قید میں رکھنے کیا ضرورت ہے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فیصلہ میں وقت دینا چاہیئے کہ اتنے وقت میں جرمانہ اداکرنا ہے اگرنہیں اداکریں گے توسزابھگتنا ہوگی۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل6 رکنی آئینی بینچ نے غلام مجتبی خان کی جانب سے احتساب عدالت نمبر 5لاہور کے جج اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں قومی احتساب آرڈیننس 1999کی دفعہ 33-Eکو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست گزارکی جانب سے آفتاب عالم یاسر بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ نیب آرڈیننس کی شق 33-Eکو چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ سزاتب تک ہے جب تک جرمانہ ادانہ کردیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کسی سے ریکوری کرنی ہے تواُس کوسزاکیوں دے رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کافیصلہ کوئی صحیفہ تھوڑی ہوتا ہے اس کوہم تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر کسی کوسزادیتے ہیں توفوری طورپر جائیداد بیچ کررقم ریکوکرلیں،6یا9ماہ مزید قید میں رکھنے کیا ضرورت ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کاکہنا تھا کہ اگر کسی کے پاس زمین نہیں تواُس سے ریکوری نہیں ہوسکتی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس معاملہ کافیصلہ ٹرائل کورٹ یا سپریم کورٹ کوکرنا چاہیئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ فیصلہ میں وقت دینا چاہیئے کہ اتنے وقت میں جرمانہ اداکرنا ہے اگرنہیں اداکریں گے توسزابھگتنا ہوگی۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسارکیا کہ یہ 20ستمبر2010کا فیصلہ ہے، کیا نیب نے کوئی ہوم ورک کیا ہے کہ کس طرح ریکوری کرنی ہے۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکی دوجائیدادوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 3رکنی بینچ کافیصلہ درخواست گذارکے خلاف ہے۔ اس موقع پر درخواست گزارکے وکیل آفتاب عالم یاسر کاکہنا تھا کہ عدالتی معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کونوٹس ہونا چاہییے اورسینئر وکیل خواجہ حارث احمد اوردیگر سینئروکلاء کو عدالتی معاون مقررکیا جانا چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرکرپشن کرنے والا فوت ہوجائے تواُس کے لواحقین سے بھی رقم کی ریکوری کی جائے گی۔ عدالت نے درخواست پر نیب، اٹارنی جنرل اورتمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کونوٹس جار کردیا۔

جبکہ عدالت نے سینئر وکیل خواجہ حارث احمد کوعدالتی معاون مقررکردیا۔ اس موقع پر بینچ نے سربراہ نے کمرہ عدالت میں موجود سینئر وکیل خواجہ حارث سے ان کی رضامندی پوچھی تواس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا عدالتی معاون بننا ان کے لئے اعزازکی بات ہے۔ جبکہ آئینی بینچ نے سید فیاض علی شاہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتمادکے دوران پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ کے خلاف ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے دیئے گئے ووٹوں کوکالعدم قراردینے کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں وزیر اعظم پاکستان اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 63-Aکا فیصلہ ہو گیا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔جبکہ بینچ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو ، ریجنل آفس ،پشاور کی جانب سے ایم ایس چراٹ سیمنٹ کمپنی اور ایم ایس سادات گھی اینڈ آئل ملز(پرائیویٹ لمیٹڈ) اوردیگر کے خلاف ٹیکس کے معاملہ پر دائر اپیلز غلطی کی بنیاد خارج کرنے کے معاملہ کی تصیح کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے غلام شعیب حسن بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ دوسری اپیل ہے ، فیصلہ ہو گیا اور نظرثانی بھی ہوگئی، اس معاملہ کوہم آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت نہیں سن سکتے اس طرح توہرکوئی دوسری نظرثانی درخواست دائر کردے گا اور ایک نئی بحث کاآغاز ہوجائے گا۔

جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ جس آرٹیکل کے تحت اِن کوغلط طور پر ڈالا گیا اسی کے تحت اس کی تصیح کردیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت درخواست سننے کاہماراسکوپ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس ایک ایک کیس میں ایک ہی کیس میں ہزاروں ایک جیسی اپیلیں ہوتی ہیں، جب بہت سارے کیسز کوایک جگہ اکٹھاکیاجاتا ہے تواس طرح کے معاملات ہوتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کسی دوسرے کیس کابتادیں اس میں اِس کو بھی سن لیںگے، مزید ٹیکس کاسوال ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر 184-3کے تحت سنیں گے توہرکیس میں دوسری اپیل بن جائے گی۔ عدالت نے چراٹ سیمنٹ کامعاملہ نمٹاتے ہوئے قراردیا کہ کسی اور کیس میں اس معاملہ کوسنیں گے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ سادات گھی اینڈ آئل ملز کے کیس میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کامعاملہ تھا۔ بینچ نے دوسری اپیل میں بھی پہلا آرڈر کرتے ہوئے کیس نمٹادیا۔