اسلام آبا(صباح نیوز)سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ پاکستان کوخطے میں رابطوںکے زریعے معاشی فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو علاقائی تعاون کیلئے اپنی سرحدیں کھولنی چاہئیں اور نجی شعبے کی اصلاح اور قومی مفاد کی طرف بڑھنا چاہئے۔انہوں نے یہ بات پائیدار ترقی کانفرنس (ایس ڈی سی) کے دوسرے دن ایک مباحثے کے دوران کہی ۔ کا نفرنس کا اہتمام پائیدار ترقی پالیسی ادارہ (ایس ڈی پی آئی) نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے تعاون سے کیا ہے ۔
اشتراک سے خوشحالی، استحکام اور مزاحمت کے لئے نئے معاشی جغرافیہ سے فائدہ اٹھانا کے موضوع پر پینل مباحثہ میں خرم دستگیر خان نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے مفاد میں بہترفیصلے کرنا چائیں ۔ پاکستان ریجنل اکنامک فورم کے چیئرپرسن ہارون شریف نے کہا کہ موٹر ویز سیاسی طور پر فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں اگر یہی سرمایہ کاری پاکستان ریلوے میں کی جاتی تو شاید اس سے اقتصادی فوائد زیادہ ہوتے ۔بییکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم علاقائی تعاون کی بات کرتے ہیں جبکہ دنیا بہت آگے بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر لینا ہونگے۔چین میں سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ سی پیک کا مقصد محض توانائی منصوبے اور رابطے نہیں تھے بلکہ ہمیں سی پیک کے ذریعے اپنے صنعتی زونز کو ترقی دینا تھا ۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سری لنکا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر دوشنی ویرکون نے کہا کہ سری لنکا میں بھی ہم اپنے جغرافیہ کی پابندی پر ایسی ہی گفتگو کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا واچ آن ٹریڈ، اکنامکس اور ماحولیات نیپال کے ڈاکٹر پارس کھریل نے علاقائی تعاون میں سارک کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پاکستان میں موسمیاتی اقدام کو مضبوط کرنے میں ٹیکسٹائل صنعت کا کردار کے موضوع پر منعقدہ اجلاس میں، یونس ٹیکسٹائل کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد نثار پلہ نے کہا کہ ٹیکسٹائل صنعت ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، لہذا اسے سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام، جنیوا کے اسد نقوی نے کہا کہ اگر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنا ہے تو اسے اپنی بجلی کی فی یونٹ لاگت کم اور دوبارہ استعمال ہونے والے مواد کا استعمال بڑھانا ہوگا۔
یورپی یونین کے پاکستان کیلئے وفد کے رکن احمد قاضی نے کہا کہ اگر ہم یہ بحث چھیڑیں کہ کون زیادہ آلودگی پیدا کر رہا ہے تو ہم کسی حل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔وزارت ماحولیات کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری محمد فاروق نے کہا کہ ہمیں ڈی کاربونائزیشن کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔تجارت میں خواتین – جنوبی ایشیائی نقطہ نظرکے عنوان سے منعقدہ ایک پینل مباحثے میں خواتین کی کاروباری سرگرمیوں کو بڑھانے کیلئے مختلف چیلنجز اور بہتری کے شعبے اجاگر کئے گئے۔
فریڈریش نومان فاونڈیشن کی برگیٹ لام نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی فاونڈیشن کس طرح کاروبار کی ترقی کے لیے بالخصوص خواتین کی سربراہی میں کاروبار کے لیے ضروری ڈھانچہ تیار کرنے میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔پاکستان سنگل ونڈو کے سی ای او آفتاب حیدر نے کہا کہ کاروبار کرنے کی کئی مشکلات، مثلا سرحد پار تجارت، غیر روایتی نوعیت کی ہیں۔ خواتین جو نیا کاروبار کر رہی ہیں انہیں مشکلات کا سامنا ہے لیکن بہت سی تجربہ کار کاروباری خواتین بھی انہی مسائل سے دوچار ہیں۔قومی ٹیرف کمیشن کی سابق چیئرپرسن انجم اسد امین نے گفتگو کو مرکزی اعداد و شمار اور حقیقی زمینی حقائق کے فرق کی جانب موڑتے ہوئے کہا کہ دیہی اور شہری خواتین میں بھی تفریق پائی جاتی ہے۔
سابق رکن صوبائی اسمبلی نجمہ افضل نے کہا کہ اگر ان شعبوں پر توجہ دی جائے جہاں پہلے سے خواتین کی بڑی تعداد سرگرم ہے تو خواتین کی سربراہی میں کاروبار کو بہت فروغ مل سکتا ہے۔شہری قیادت میں احتساب کے ذریعے نازکی سے مزاحمت کی جانب کے موضوع پرپالیسی ڈائیلاگ میں مقررین نے زور دیا کہ پائیدار ترقی کے لیے غربت کے خاتمے کے پروگراموں کو کمیونٹی سطح پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ (پی پی اے ایف) کے سی ای او نادر گل بریچ نے کہا کہ پاکستان کی مزاحمت اور پائیدار ترقی کے سفر میں ہم اہم موڑ پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “جب شہری اپنے رہنماوں کی منصوبہ بندی، نگرانی اور جائزے کے عمل میں شامل ہوتے ہیں تو سیاسی نظام پر اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے