اگلی فل کورٹ میٹنگ میں بے بنیاد مقدمہ بازی بارے فیصلہ کریں گے، ایسے کیسز میں جرمانہ کریں گے، وکلاء کو بھی اعتماد میں لیں گے۔چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ اگلی فل کورٹ میٹنگ میںبے بنیاد مقدمہ بازی کے حوالہ سے فیصلہ کریں گے،اس قسم کے کیسز میں جرمانہ کریں گے اور اس حوالہ سے وکلاء کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ہم ہائی کورٹ سے متفق ہیں کہ یونیورسٹی کے معاملات میںمداخلت نہیںکرنی چاہیئے۔ہائی کورٹ کو مخصوص مدت میں کیس کافیصلہ کرنے کے حوالہ سے ہدایت دینا مناسب نہیں۔چیف جسٹس کی ایک وکیل کودرخواست گزارکی مفت وکالت کرنے کی ہدایت۔جبکہ عدالت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوڈاکٹراے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ سے نکالنے کے معاملہ پر دائرمقدمہ میں درخواست گزار سعید احمدکی عبوری ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عیوض منظوری کرلی۔ عدالت نے حکومت اور مدعا علیہ کونوٹس جاری کرتے ہوئے 18نومبرتک سماعت ملتوی کردی۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2رکنی بینچ نے سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل سعید احمد کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کاایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ درخواست گزارکانام کیس میں ڈال دیا ہے، اس کے دستخط دکھائیں۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہسپتال ٹرسٹ لاہور کے ٹرسٹی ہیں۔ اس پر درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھا کہ پہلے نہیں تھے اب ہیں۔ وکیل کاکہناتھا کہ ہمارے اوپرالزام ہے کہ ہم نے قراردادپاس کر کے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کوٹرسٹ سے نکال دیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ قرارداد ڈاکٹر شوکت بابر ورک، عائشہ نذیر اوردیگر نے پیش کی، میرا نام نہ قرارداد پیش کرنے والوں میں ہے اور نہ ہی میں اس سے استفادہ کرنے والوں میں شامل ہوں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ اب ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی بیٹی نے ٹرسٹ کاچارج سنبھال لیاہے اور باقی سب کونکال دیا ہے۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھاکہ ٹرسٹ کے 7ممبرز ہیں اوردوتہاری اکثریت سے قراردادمنظورہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے سرکاری وکیل کوہدایت کی کہ وہ کیس کی تیاری کریں اگردرخواست گزارکانام قرارداد میں ہوتوکیس دوبارہ سماعت کے لئے رکھ لیتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزارکوعبوری ضمانت دے دیتے ہیں اگر ان کاتھوڑاسابھی کردارہواتوان کوجانے نہیں دوںگا۔ سرکاری وکیل کاکہناتھا کہ کوئی اورریکارڈ نہیں ہے۔ عدالت نے حکومت اور شکایت کندہ کونوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کی عبوری ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عیوض منظوری کرلی۔ چیف جسٹس کاکیس کی سماعت 18نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہنا تھاکہ درخواست گزار کے خلاف کوئی مواددکھائیں۔ بینچ نے عبدالرزاق کی جانب سے کنزویٹو فارسٹس سرگودھا اوردیگر کے خلاف ملازمت سے نکالے جانے کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ جی عبدالرزاق بھائی! اپناوکیل کریں گے کہ نہیں۔اس پر درخواست گزار کاکہنا تھا کہ میں نے وکیل کیا تھا اوراسے 10ہزارروپے فیس دی تھی تاہم وہ اسلام آباد آنے کوتیارنہیں ، وکیل کرنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل کوبلایا اور کہاکہ وہ درخواست گزار کی مفت وکالت کریں۔ جبکہ بینچ پنجاب سمال انڈٹریزکارپوریشن کے ریجنل ڈائریکٹرگوجرانوالہ کے توسط سے فیصل لیاقت، ڈاکٹر شہزاد بشیر،محمدمنیر،ملک شاہد جاوید اوریگرکے خلاف سرکاری مقصد کے لئے زمین کے حصول کے معاملہ پر دائر4 درخواستوں پرسماعت کی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ جلدکیس سن کرفیصلہ کردے اور ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہائی کورٹ جلد فیصلہ کرے گی،ہائی کورٹ کو مخصوص مدت میں کیس کافیصلہ کرنے کے حوالہ سے ہدایت دینا مناسب نہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ ہماراحکمنامہ کیس سننے والے جج کے سامنے رکھیں۔بینچ نے محمد شیرازاسلم میاں  کی جانب سے ریکٹر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز(نمل)،اسلام آباد کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے اشتیاق احمد راجہ بطوروکیل پیش ہوئے۔درخواست گزار کواپنے ڈاکٹریٹ کے دفاع کے لئے وقت دیا گیا تھا اسی دوران یونیورسٹی نے درخواست گزارکانام خارج کردیا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ہم ہائی کورٹ سے متفق ہیں کہ یونیورسٹی کے معاملات میںمداخلت نہیںکرنی چاہیئے۔ وکیل کاکہناتھاکہ ان کے مئوکل کو 30اپریل 2017تک پی ایچ ڈی عربی کا نظرثانی شدہ تھیسز جمع کروانے کاوقت دیاگیا اوراسی دوران ان کایونیورسٹی سے نام ہی خارج کردیا گیا۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہناتھاکہ درخواست گزارنے براہ راست معاملہ کے حوالہ سے ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی، کیاہائی کورٹ کے علاوہ یونیورسٹی قانون میں دادرسی کافورم نہیں تھا، وکیل اس حوالہ سے ہماری معاونت کریں۔ عدالت نے یونیورسٹی انتظامیہ کونوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔ عدالت کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے وکیل بتائیں کہ یونیورسٹی قانون میں کوئی دادرسی کااورفورم تھا کہ نہیں۔ بینچ نے ایم /ایس اے ایس آبربلڈرز راولپنڈی کی جانب سے چیف ایگزیکٹر سیون سکائی ڈیجیٹل مارکیٹنگ پرائیویٹ لمیٹڈاسلام آباد اوردیگرکے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد حبیب اللہ خان بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس شاہد بلال حسن کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ اتفاق رائے کے حکم کے خلاف آئے ہیں میں نے پرچی پر جرمانہ لکھا ہوا تھا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہناتھاکہ اگلی فل کورٹ میٹنگ میںبے بنیاد مقدمہ بازی کے حوالہ سے فیصلہ کریں گے اوراس قسم کے کیسز میں جرمانہ کریں گے اور اس حوالہ سے وکلاء کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ عدالت درخواست خارج کردی۔  ZS