لاہور (صبا ح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی،سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ پی آئی اے کو اونے پونے داموں فروخت کیا جارہا ہے،قومی اداروں کے انجینئرز، ماہرین اور ہنرمندوں پر اعتماد کیا جائے تو پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور سٹیل ملز آج بھی بحال اور منافع بخش ہوسکتے ہیں،
وہاڑی، خانیوال، لاہور میں ورکرز کنونشن، امرا اضلاع کی تقریبِ حلف برداری اور میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت، بیوروکریسی اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار نام نہاد ماہرین نے قومی اداروں کو سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ تباہ کیا. پی آئی اے کو اونے پونے داموں فروخت کیا جارہا ہے. قومی اداروں کے انجینئرز، ماہرین اور ہنرمندوں پر اعتماد کیا جائے تو پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور سٹیل ملز آج بھی بحال اور منافع بخش ہوسکتے ہیں. بیوروکریسی ہر فن مولا تو بنتی ہے لیکن ‘ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا’ ہی کردیتی ہے. ریاست کے انتظامی، معاشی اور ترقیاتی محاذ پر فوج اور بیوروکریسی کا کردار ازسرِنو متعین کرنا ہوگا، وگرنہ حالات مزید ابتر ہونگے اور ایک ایک کرکے تمام ادارے اور انتظامیہ اپنی رِٹ کھوکر تباہی کے راستے پر گامزن ہوجائے گی.
لیاقت بلوچ نے کہا کہ چین، سعودی عرب اور قطر کیساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات مستحکم ہونے چاہئیں، ھم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن اتحادی حکومت یہ بھی قوم کو بتائے کہ محض عالمی اداروں، عالمی قیادت سے ذاتی مفادات تعلقات استوار کرنے سے ملک و مِلت کو کیا حاصل ہورہا ہے، یہ ساری بھاگ دوڑ ملک و ملت کے لیے اس وقت کارآمد ثابت ہوگی جب ملک میں سیاسی استحکام کے لیے سیاسی بحرانوں کا خاتمہ، انتظامی نظام اور بااختیار طبقات کی کرپشن کا خاتمہ اور بیرونی قومی وسائل کے امانت و دیانت سے استعمال کا نظام ہوگا، وگرنہ کرپشن، بدانتظامی، مفادات، پسند ناپسند کا اسلوبِ حکمرانی. مزید خرابیاں اور پستی لانے کا سبب بنے گا. ملک کی کوئی سیاسی جماعت بیرونی مداخلت کو موقع نہ دے اور نہ ہی حکومت و سیاست لایعنی کشمکش سے سیاسی اشرافیہ کو بالادستی کی دعوت دے. سیاسی جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے سے بحرانوں سے نجات ملے گی.
لیاقت بلوچ نے پٹرول، ڈیزل سستا کرنے کی بجائے مزید مہنگا کرنے کے حکومتی فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کہ مہنگی بجلی، پٹرول اور گیس معاشی پہیہ کو جام کر تی ہے. ایسی صورتحال میں جبکہ ملکی اشیا کی پیداواری لاگت ناقابلِ برداشت ہوجائے، دنیا سے بھیک مانگنا اور بیرونی سرمایہ کاری کی توقع رکھنا عبس ہوگا. نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی، ان کے مستقبل کا تحفظ اور 24 کروڑ عوام کو مایوسی سے بچانے کے لیے زراعت، تجارت، برآمدات کا فروغ اور صنعت کا پہیہ چلانے کے لیے ترجیحی اقدامات کرنا ہونگے وگرنہ عوام کے غم و غصہ کا لاوا پھٹے گا اور پھر نام نہاد سیاسی، جمہوری حکومت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا. لیاقت بلوچ نے سوال کے جواب میں کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم یا قانون سازی بدنیتی اور زبردستی کی 26 ویں ترمیم کا بغل بچہ ہی ہوگی. ھم نے حقائق اور آئین کے بنیادی اصولوں سے متصادم ترامیم کو مسترد کیا تھا، مزید غلط اقدامات کو بھی مسترد کرتے ہیں.