یہ کوئی نیا طریقہ ہے کہ وکیل نے جج کو سنناہی نہیں۔ وکیل ہمارے سامنے نئے سوال نہ اٹھائیں، جسٹس عائشہ اے ملک

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ کی سینئر جج جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا ہے کہ یہ کوئی نیا طریقہ ہے کہ وکیل نے جج کو سنناہی نہیں۔ وکیل ہمارے سامنے نئے سوال نہ اٹھائیں، قانون کے دائرے میں رہ کربحث کریں۔مقدمہ بازی کوختم کرنا چاہیئے۔ یہ ہماراکام تونہیں کہ شواہد کاجائزہ لیں، 45سال سے زمین حکومت کے پاس ہے ، تین عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلے دیئے ہیں۔ وکیل اچھے کیسز میں بحث کریں تاکہ ہمیں بھی مزہ آئے۔ تین عدالتوںکے فیصلوں کے خلاف ہم نظرثانی نہیں کرسکتے۔یہ ہم رواج نہیں بنائیں گے کہ کوئی اورآکر بتائے کہ وکیل نہیں آرہے۔جسٹس عائشہ اے ملک کی سربراہی میں جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل2رکنی بینچ نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 6میں مقدمات کی سماعت کی۔ بینچ نے چیف آفیسر، میٹروپولیٹن کارپوریشن ، جناح ہال ، لاہورکی جانب سے اشتیاق احمد اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ تینوں عدالتوں سے آپ ہارے ہیں، کوئی قانونی سوال کیس میں نہیں ہے، میرٹ پر کیس کافیصلہ ہو گیاآپ نے اپیل دائر نہیں کی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے محمد اقبال اوردیگر کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ، کمالیہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ یہ کیسز سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہیں۔

جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھاکہ میرٹ پرکیس چلالیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے ظفر اقبال کی جانب سے محمد رمضان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ماتحت عدالت میں آپ اس بہانے پر کیس نہیں چلارہے کہ کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے، پرانے کیسز ہیں انہیں ماتحت عدالت میں چلائیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے مسمات سندس شبیر کی جانب سے اعجاز احمدستی اوریگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ یہ پرانے کیسز ہیں، فیملی معاملات میں ہم مداخلت نہیں کریں گے، ایک ہفتے کاوقت وکیل کو نہیں دے سکتے، وکیل چاہیں توایک دن دے سکتے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے زاہدہ پروین کی جانب سے رائو عبدالرب خان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزار باہمی رضامندی سے کئے گئے عدالتی حکم کے خلاف سپریم کورٹ آئی ہیں، جرمانہ بھی لگ سکتا ہے، اتفاق رائے کے حکم سے بھاگ رہے ہیں۔

جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ تین عدالتوںنے فیصلہ دیا ہے اور اتفاق رائے سے جاری حکم کے خلاف درخواست گزارسپریم کورٹ آئی ہیں۔ مدعا علیہ کے وکیل کاکہناتھا کہ چارمرلے زمین کامعاملہ ہے، عدالت نے 2005میں زمین کی قیمت 49لاکھ 50ہزارروپے مقررکی اور فریقین نے اپنے حصہ کی رقم وصول کرلی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھاکہ فیصلہ سپریم کورٹ چیلنج کرنے کا کوئی جوازش بن رہا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

بینچ نے حاجی دل فرازخان اوردیگر کی جانب سے مسمات جمیلہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ 2016سے معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، 15اکتوبر کورواں سال کیس سنا گیااوردرخواست گزار نے وکیل کرنے کے لئے وقت مانگا، اب دوبارہ آکر وقت مانگ رہے ہیں، 2010کا کیس ہے اور سپریم کورٹ میں 2016سے زیرا لتوا ہے ، تینوں عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلے دیئے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ یہ کوئی نیا طریقہ ہے کہ وکیل نے جج کو سنناہی نہیں، ہمارے سامنے کوئی سوال نہیں جس کوہم سنیں، کیا سارے درخواست گزارانتقال کرگئے ہیں، یہ کیس بنتانہیں ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کی استدعا پر عدالت نے کیس کی سماعت دوہفتے کے لئے ملتوی کردی۔ بینچ نے جاوید عارف کی جانب سے نثار محمد خان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ وکیل ہمارے سامنے نئے سوال نہ اٹھائیں، قانون کے دائرے میں رہ کربحث کریں، تین آرڈر ہٹا کردوبارہ موقع تونہیں دے سکتے، یہ کیس نہیں بنتا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے فرید خان اوردیگر کی جانب سے خانزادہ فاروق مرحوم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ درخواست گزار تین عدالتوں کو مطمئن نہیں کرسکے کہ آپ کی ملکیت ہے، کوئی کیس نہیں بنتا، تینوں عدالتوںکے فیصلے خلاف ہیں۔ بینچ نے فضل مولا کی جانب سے اصغر علی خان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزار کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب تک جائیداد تقسیم نہیں ہوگی کچھ نہیں ہوسکتا،

درخواست گزار کے حق میں فیصلہ ہے تاہم وہ جائیداد سے مخصوص حصہ مانگ رہے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے عبدالعزیز کی جانب سے فرازدین کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سید رفاقت حسین شاہ نے پیش ہوکربتایا کہ انہیں وکیل میاں محمد سعید کالاہور سے فون آیا تھاان کی والدہ کاانتقال ہوا ہے و ہ تجہیزوتکفین میں مصروف ہیں آئندہ ہفتے کی تاریخ دے دیں۔

جسٹس عائشہ اے ملک کاسید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کل توآپ غائب ہو گئے تھے آج آپ کو غائب نہیں ہونے دیں گے۔ سید رفاقت حسین شاہ کاکہناتھا کہ میاں محمد سعید کے اے اوآر بھی لاہور سے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا یہ ہم رواج نہیں بنائیں گے کہ کوئی اورآکر بتائے کہ وکیل نہیں آرہے، عجیب وغریب وجہ بتائی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

بینچ نے صدبار خان مرحوم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اورسیکرٹری لائیواسٹاک اینڈڈیری فارم، پشاوراوردیگر کے توسط سے خیبرپختونخواحکومت کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزارکی جانب سے ڈاکٹر عدنان خان بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ یہ ہماراکام تونہیںکہ شواہد کاجائزہ لیں، 45سال سے زمین حکومت کے پاس ہے ، تین عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلے دیئے ہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ اگر 40سال پہلے زمین ضبط ہوئی تھی تو اس وقت چیلنج کرتے۔

جسٹس عائشہ اے ملک کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ میرے سوال کاجواب دے دیں کہ کیا ہم نے ساری شہادتیں دوبارہ دیکھنی ہیں۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل کے حق میں فتویٰ بھی جاری کیا گیا ہے۔اس پر جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ فتویٰ کو نہ شریعت اور نہ ہی قانون کی حمایت حاصل ہے، وکیل اچھے کیسز میں بحث کریں تاکہ ہمیں بھی مزہ آئے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔