خدا بنے تھے یگانہ مگر بنانہ گیا … تحریر : کشور ناہید


یگانہ نے اپنے زعم شاعری میں بھی قبول کیا تھا کہ انسان کے ہاتھ میں اس کامقدر، جس حد تک ہے، اس کو تسلیم کرے اور اپنی اوقات میں رہے۔ ان کا زمانہ گزرا اور پھر وہ زمانہ آیا کہ ہم نے خود کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہوئے اپنے طور پر بنیادی قانون میں توجیہات اور ترجیہات مقرر کرنی شروع کر دیں۔ پھر ضیا کے دور میں وہ زمانے بھی آئے کہ لوگ دروازہ کھٹکھٹا کے مالک مکان سے پوچھتے تھے۔ کلمہ سناؤ۔ سبحان اللہ پھر زمانے آئے کہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے ہر گھر کے لوگوں کو بلانے جس میں زبردستی بھی شامل تھی ،سے ہوتا رہا۔ سرکار نے ان زبردستیوں کو جاری رہنے دیا۔ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ کہیں کوئی زمین پہ کاغذ کا ٹکڑا دیکھا فورا اٹھا کر چوما اور ہدف بنایا۔ مسیحی افراد اور بڑھتے بڑھتے آبادیوں پر حملہ آور ہو کر اپنا ایمان تازہ کرتے رہے ۔ اب تو کئی سالوں سے یہ رواج پایا گیا کہ جس شخص سے پڑھا لکھا شخص ان کی تعلیم کی تشریح سے ذرا بھی اختلاف کرے تو اس کو شاتم رسول کہہ کر، خود ہی فیصلہ کر کے، اجتماعی حیثیت سے اس کو کبھی جیل سے کبھی گھر یا کلینک سے اٹھا کر اتنا مارتے کہ اس کا وجود اور کپڑوں تک آگ لگا کر ، اپنا ایمان تازہ کرتے اور ثواب سمیٹتے ہیں۔ مثالیں دوں تو پورا کالم بھر جائے گا۔ تازہ ترین ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کا بہیمانہ قتل ۔ اس وقت تو وکیل ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور تعلیم یافتہ لوگ بھی اس جاہلا نہ مسلسل بڑھتے خدائی خدمت گاروں کو روکنے کی تدبیریں آئے روز قرار دادوں کی شکل میں ان جاہلوں پر تبری بھیجتے اور کہتے رہتے ہیں کہ اگر یہ جنون ہے تو پھر جنون کی انتہا کیا ہے۔

پاکستان میں پہلے کم مسائل تھے کہ ہم روز ایک نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اب عدلیہ کو اپنی مرضی کا بنانے کے لئے قدم اٹھایا گیا۔ پھر یہ سوچ کر کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ عدلیہ میں کتنی قانونی اور انسانی خامیاں ہیں کہ ابھی تک ہر عدالت میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں قوانین نقطہ انجام تک پہنچنے والے ہیں۔ عدلیہ میں ہر وہ شخص جو کسی مقدمہ، جھگڑے یا قتل و غارت میں ملوث ہوتا ہے اگر وہ ان پڑھ یا محدود علم والا ہے تو وہ وکیلوں، محرروں اور ججوں کے ہاتھ میں کھلونا ایسا ہے کہ طول دینے میں وکیل، محرر اور دوسری پارٹی سے زیادہ خود کو طاقتور ثابت کرنے میں قانونی تاویلات کے لئے لمبی بحث کرتے ہوئے وہ پنجابی کا محاورہ سچ لگتا ہے کہ ہر چند ہمارے بندے کو پھانسی کی سزا ہو گئی ہے مگر ہمارا وکیل بہت بولا تھا ۔ البتہ وراثت اور اب بچوں کی کسٹڈی کے معاملات، بچوں کے جوان ہونے تک اور خاندانی پیڑھیوں میں مدتوں کے باوجود، مقدمہ اس لیے قائم ہے کہ دونوں طرف وکیل کبھی حاضر نہیں ہوتے ، کبھی اس میں لسی بنانے کے لیے پانی یعنی رقم کا تقاضہ اور پھر گواہوں کا اعتبار نہیں ہوتا۔ یہ قصہ تو چھوٹی عدالتوں کا ہے۔ بڑی عدالتوں میں جتنے قاتل مجرم ہوتے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر، کرائے کے قاتل ہوتے ہیں۔ جس طرح اندر آتے ہیں، اسی طرح رہا بھی ہو جاتے ہیں کہ وکیل کے مقابلے میں ایک جج کرنے کی اصطلاح بھی تو تجربات ہی نے نکالی ہے۔ بیشتر، خاندانی اور سیاسی مقدمات کے معاملے میں، بزرگ مشور ہ دیتے ہیں کہ قانونی موشگافیوں میں تو نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ آپس میں بیٹھ کر صلح صفائی کر لو۔ یہاں پھر ایک اور ترکیب سامنے لائی جاتی ہے وہ ہے جرگہ سسٹم، جس کو مردان اور بنوں میں بہت پھیلانے کا ثواب یا گناہ،کے پی کے وزیر اعلی کو جاتا ہے۔ کہ یہ بھی آزمایا ہوا طریقہ ہے جس میں ضروری نہیں کہ مجرم یا قصور وار ہی کو سزا یا فیصلہ اس کے حق میں ہو۔ بہرحال فساد ختم کرنے کا کوئی آئینی طریقہ چھوٹی تو چھوٹی بڑی عدالتوں میں بھی لمبا چلے گا والی بات رہتی ہے۔ مثال یاد کراؤ نواب کالا باغ کو ا نکے بیٹے نے سامنے کھڑے ہو کر قتل کیا اور اس وقت تک کمرے کا دروازہ نہیں کھولا جب تک اس کو یقین نہ ہو گیا کہ نواب صاحب واقعی مر گئے ہیں۔ اس کا نہ کوئی گواہ تھا نہ کوئی مدعی ایسے المیے اندرخانی سمیٹ لیے جاتے ہیں۔ خود کشیوں کی اولین وجوہات یہی ہوتی تھیں اور اب غیرت کے نام پر قتل۔

ہم لوگوں نے کئی دفعہ دریائے راوی کے پل کے پاس کشتیوں والوں سے پوچھا تھا کہ لڑکیاں برقعے میں آ کر خود کشی کیوں کرتی ہیں۔ یہ بات بھی پچاس برس پہلے کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کشتی جب پل کے نیچے جاتی ہے تو پانی کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اور گھروں سے بھاگی لڑکیاں اس طرح خود کشی کر لیتی ہیں۔ کچے گھڑے پہ تیرتی سوہنی کی کہانی تو اب نہیں۔ اب تو تیزاب بہت بڑا حل ہے۔ چاہے پی لیں چاہے کوئی رشتہ نہ ہونے پر لڑکی کے منہ پہ پھینک دیا جائے۔ مگر اب خود کشیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ، وجہ بچے بہت ہو گئے، کمائی کے مقابلے میں مہنگائی کہیں زیادہ ہے۔ بچے بھوکے رہ جاتے ہیں۔ کبھی بجلی اور دیگر بل جان کو آجاتے ہیں۔ آسانی سے پورے کے پورے خاندان کو گولی مار کر ختم کر کے خود کو بھی کبھی مار لیتے ہیں اور کبھی گھر میں لاشیں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ شہروں میں سوشل میڈیا، جذباتی لوگوں اور نوجوانوں کو غیر قانونی ہدف تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ وطن کا بخت نارسا، کس کس کو دیکھے کہ ہمارا شور مچانا تو آئی۔ پی۔ پیز کے مسئلے پر دھتکار دیا گیا کہ ہم نے کہا تھا کہ بہت سی آئی۔ پی۔ پیز، سیاست دانوں کے رشتہ داروں کی ہیں۔ آج تنگ آکر سرکار اور نیب ان کے خلاف بول اٹھے ہیں۔ اسی طرح عدلیہ میں جن لوگوں کے فیصلے ممبر شپ فائنل ہونے میں لٹکے ہوئے تھے۔ یہاں بھی 8جج کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ کوئی ان کو چیلنج کرتا ہے بہت سی خواتین ممبر ہونے کا حلف لے کر اتار دی گئیں۔ اب پھر فیض صاحب یاد آتے ہیں کہ منصفوں کے بارے وہ کیا کہتے تھے۔ یگانہ سے فیض صاحب اور احمدفراز تک یاد آرہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ