اب ووٹ نیا پتھر ہے: کشمیر میں 10 سالہ گورنر راج کے بعد اسمبلی انتخابات میں نیا کیا ہے؟

 سرینگر(صباح نیوز) مقبوضہ جموں وکشمیر میںجموں کی 43 اور کشمیر کی 47 اسمبلی سیٹوں کے لیے بدھ کو شروع ہونے والے تین مرحلوں کے انتخابات سے قبل سیاسی ریلیوں میں وہ ساری باتیں ہو رہی ہیں جن کے نحیف اظہار پر بھی لوگوں کو تھانوں میں طلب کیا جاتا تھا۔اس صورتحال پر مختلف حلقے الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی اور اس کے حامی میڈیا حلقے اسے علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کا احیا کہتے ہیں جبکہ دیگر حلقے اسے مین سٹریمِنگ آف سینٹِمنٹ یعنی عوامی جذبات کے حاشیے سے واپس مرکزی بیانیہ کا حصہ بننا قرار دے رہے۔

جموں کشمیر کے سابق وزیر حسیب درابو نے پیر کو ہی انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر میں شائع ایک کالم میں لکھا: ووٹ اب احتجاج کا ایک آلہ بن چکا ہے۔ووٹ اب نیا پتھر ہے۔ یہ مثبت تبدیلی ہے کہ پتھر پھینکنے والے، جنھیں(حکومت کی طرف سے) احتجاجی دہشت گرد کہا جاتا تھا وہ جمہوریت کی ڈومین میں لوٹ رہے ہیں۔اس سال اپریل میں انڈیا کی پارلیمنٹ کے لیے پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی الیکشن ہوئے۔ عین انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی فنڈنگ کے الزام میں پانچ سال سے دلی کی تہاڑ جیل میں قید سابق رکن اسمبلی عبدالرشید شیخ عرف انجینیئر رشید کو جیل سے ہی الیکشن لڑنے کی اچانک اجازت ملی۔ان کے نوعمر بیٹے ابرار رشید نے مہم چلائی تو ہزاروں لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انجینیئر رشید نے جیل میں بیٹھے بیٹھے سابق وزیراعلی عمر عبد اللہ کو دو لاکھ ووٹوں کے بھاری فرق سے ہرا دیا اور اپنے روایتی حریف سجاد غنی لون کو تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا۔ان کی جیت کے لیے ان کی مہم اور اس دوران نعروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔

ان کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی نے قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کیا۔ ان کے نعروں میں ظلم کا بدلہ ووٹ سے اور یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے وغیرہ شامل ہیں۔پارلیمانی انتخابات میں عمر عبداللہ کے ساتھ ساتھ ایک اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو بھی شکست ہوئی، جس کے بعد انھوں نے اسمبلی انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور اپنی جگہ اپنی بیٹی التجا مفتی کو میدان میں اتارا۔مقامی اسمبلی کے لیے بھی مہم جاری ہی تھی کہ تہاڑ میں قید انجینیئر رشید کو عدالت نے عبوری ضمانت پر تین ہفتوں کے لیے رہا کر دیا اور وہ زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم میں جڑ گئے اور وادی کشمیر کی تیس سے زیادہ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے۔

اس بار اسمبلی الیکشن میں تہاڑ جیل میں قید سرجان برکاتی عرف آزادی چاچا بھی جیل سے ہی حصہ لے رہے ہیں اور ان کی مہم ان کی بیٹی صغری برکاتی چلا رہی ہیں۔عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی رویاتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینیئر رشید اور صغری کی مہم نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی سپورٹ حاصل کر رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ان ہی کی باتیں وائرل ہیں۔کیونکہ دونوں کے انتخابی نعروں میں ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔ایک طرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد ہے دوسری طرف محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی ہے اور تیسری طرف انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی ہے، جس نے الیکشن سے تین روز قبل حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔

جماعت اسلامی نے آخری بار 1987 میں الیکشن لڑا تھا، اور مسلح شورش شروع ہوتے ہی انتخابات کو انڈیا کا سفارتی پراپیگنڈا اور شہیدوں کے ساتھ غداری قرار دے کر لگاتار بائیکاٹ کی پالیسی اپنائی تھی۔لیکن اس بار جماعت اسلامی نے وادی میں 9 امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح انجینیئر رشید اور جماعت اسلامی یہاں کی روایتی سیاسی جماعتوں کو 47 میں سے 40 سیٹوں پر چیلنج کررہے ہیں۔پارلیمنٹ الیکشن کے دوران وادی کشمیر کے انتخابی میدان سے دور رہنے والی بی جے پی نے بھی اس بار اسمبلی کے لیے کشمیر سے 19 امیدوار نامزد کئے ہیں، جبکہ جموں کی سبھی 43 سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔جب سے انجینیئر رشید کی لہر کشمیر میں چلی ہے، عمر عبد اللہ سمیت سبھی روایتی پارٹیوں نے انھیں بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے۔ جس پر انھوں نے جواب بھی دیا اور وزیراعظم مودی کو چیلنج بھی کرتے رہے۔لیکن عبداللہ اور مفتی خانوادوں کے سیاسی حلقے اعتراف کر رہے ہیں کہ جماعت اسلامی اور انجینیئر رشید کا اتحاد جیت کو مشکل بنا سکتا ہے۔

اکثر مبصرین کی رائے ہے کہ جس قدر کشمیر میں سیاسی قوتوں کی مشرومنگ ہوگی اسی قدر بی جے پی کو جموں میں قدم جمانے میں مدد ملے گی۔نیشنل کانفرنس پورے جموں کشمیر میں 90 میں سے 51 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس 32 پر۔ دونوں کے درمیان انتخابی اتحاد کی سٹریٹجری یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس مسلم اکثریتی کشمیر سے کم از کم 30 سیٹوں پر برتری حاصل کرے اور کانگریس جموں کے ہندو اکثریتی حلقوں سے کم از کم 15 سیٹیں جیت جائے۔ واضح رہے اسمبلی میں سادہ اکثریت کا نمبر 45 ہے۔انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں ہیں۔ لہذا وہ آزاد امیدواروں کے طور الیکشن لڑرہے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر آزاد امیدواروں کی شرح کل امیدواراں کا چوالیس فیصد ہے۔سیاسی تجزیہ نگار عمر رئیس کہتے ہیں کہ ریلی میں ہجوم الگ بات ہے اور اس ہجوم کو ووٹوں میں تبدیل کرنا الگ بات۔

نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد اس نئی لہر سے ضرور پریشان ہوسکتا ہے، کیونکہ اگر کشمیر سے صرف ایک درجن نئے چہرے منتخب ہوئے تو وہ گروپ کِنگ میکر بن سکتا ہے۔2014 کے پارلیمانی انتخابات میں جیت اور نریندر مودی کے اقتدار پر براجمان ہونے بعد سے ہی بی جے پی اس آرزو کو دوہراتی رہی ہے کہ جموں کشمیر میں ان کی حکومت بنے گی اور وزیراعلی ہندو ہوگا تاکہ جموں کشمیر کے اقتدار پر کشمیری مسلمانوں کی بالادستی کو ختم کیا جائے۔ظاہر ہے اس بار بی جے پی کو ملکی سطح پر بھی سیاسی کمزوری کا سامنا ہے اور جموں میں پارٹی کے اندر نامزدیوں کو لے کر اندرونی خلفشار چل رہا ہے۔لیکن اس سال اپریل میں ہوئے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی 29 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوئی تھی جس کی وجہ سے پارٹی پرامید ہے کہ وہ جموں میں سویپ کرسکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے لیے ہندو ووٹروں کے ساتھ ساتھ جموں کی چناب ویلی (ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن) اور نیلم ویلی (راجوری پونچھ) کے مسلم ووٹرس کا اہم کردار ہوگا۔چونکہ جموں کشمیرپورے ملک میں واحد خطہ ہے جہاں پہلے ہی انتخابی حلقوں کی نئی حدبندی مکمل کی جاچکی ہے۔

چناب میں اس فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے۔کالم نویس مبشر نائیک کے مطابق چناب ویلی کی چھ سیٹوں میں جن دو سیٹوں ڈوڈہ ویسٹ اور پاڈر۔ناگ سینی حلقوں کا اضافہ کیا گیا، وہ دونوں سیٹیں ہندو اکثریتی علاقے ہیں اور حدبندی کی وجہ سے کشتواڑ سے چند حصہ کاٹ کر اسے بھی ہندو اکثریتی کانسچونسی بنایا گیا۔واضح رہے 2014 میں بی جے پی نے چناب ویلی میں چھ میں سے چار سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ یہی وجہ ہے وزیراعظم نریندر مودی نے جموں کشمیر کی انتخابی مہم کی شروعات کشتواڑ میں بڑی ریلی سے کی۔اس قدر پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں کسی ایک سیاسی قوت کی جیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، لیکن اگر ان انتخابات کا نتیجہ معلق اسمبلی کی صورت میں نکلا تو سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی جماعت کو اتحادی اکٹھا کرنے میں ایڑی چوڑی کا زور لگانا پڑسکتا ہے ۔۔