رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، شیر افضل مروت

اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماء شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ تین چار دنوں میں کچھ اچھی باتیں بھی ذہن میں سما گئی ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے نفرت کے ماحول میں کھانے کا اہتمام کیا اور ہمیں سنا، پارلیمنٹ کے ساتھ جو ہوا شاید یہ نہ ہوتا۔انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، خواجہ آصف اور عطا تارڑ سے پی ٹی آئی میں نفرت کی جاتی ہے، قسم اٹھاتا ہوں اگر ان کو کچھ کہا جائے گا تو وہ ہاتھ روکوں گا، اس دن میں نے بات کی لیکن موقع نہ ملا، میں نے ساتھیوں کو کہا کہ ہمارے پاس گارڈز ہیں میدان کار زار بنا لیتے ہیں۔رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ ہماری گرفتاری کیلئے نہیں آئے ،بہر حال مجھے گرفتار کیا اور لے گئے، میرے پاس کلاشنکوف تھے اور پستول تھی ابھی تک کچھ بھی واپس نہیں کیا گیا۔شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ جج جب سے آیا ہے یہی کام کررہا ہے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ اس جج نے نہیں دیے، رات کو اہلکار آئے اور مجھے ساڑھے نو بجے گاڑی میں بٹھایا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے لے،

مزید کہا کہ وہاں نقاب پوش بیٹھے ہوئے تھے اور اس نقاب پوش کو میں نے پہنچان لیا، اس نقاب پوش نے پستول نکالا اور کہا کہ اگر کوئی بھاگ جاتا ہے تو اسے مار دیا جاتا ہے۔اجلاس کے دوران اسد قیصر نے پوری پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹیز نے 9 اور 10 تاریخ کی درمیانی رات کے ہونے والے واقعے پر یکجہتی کا اظہار کیا، پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس اور قابل احترام ادارہ ہے، یہ پارلیمنٹ جیسی بھی ہمیں اس کا احترام ہے، آئینی ترمیم کیلئے ہمارے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سعد اللہ بلوچ کو بازیاب کرانے کیلئے ان کی فیملی کو اغوا کیا گیا، زور زبردستی سے لانے والے اس قانون کی کیا حیثیت ہوگی، کیا چیف جسٹس اس قسم کے قانون کے بعد اپنے ایکسٹنشن کیلئے تیار ہوں گے؟ آج اگر وہ فائدہ لینے سے انکار کرے تو کہیں گے کہ بڑا قدم اٹھایا۔قبل ازیں آج ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سوالات کے وقفے کے دوران وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب اسمبلی نہ ہو تو آرڈیننس پیش کیا جاسکتا ہے، جو آرڈیننس نگران حکومت کے دور میں آئے وہ ایوان میں پیش کیے گئے ، اب ایوان کی مرضی ہے کہ ان کو اپنائیں یا مسترد کردیں،حکومت کا ان آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایوان کا اختیار ہے کہ آرڈیننسز میں ترمیم کرے منظور کرے یا مسترد کرے۔اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ فوجداری قوانین میں بڑے عرصے سے اصلاحات نہیں ہوئیں ہیں، ہم نے جامع پیکج مرتب کیا ہے جو کابینہ میں جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج کرنا آسان جبکہ نکالنا مشکل کام ہے، چالان جمع کرانے کے وقت پر کام ہورہا ہے،مزید کہا کہ ٹرائل کے وقت کا تعین بھی کیا جارہا ہے اور اس کو بل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اعلی عدلیہ کی تعداد بڑھانے کی بات ہو تو تنقید شروع ہو جاتی ہے، لوگ بری ہونے تک آٹھ آٹھ سال گزار چکے ہوتے ہیں، کوئی قانون جرگہ کا فیصلہ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اعلی عدلیہ کو کالونیل دور کے طرز پر چلا رہے ہیں، ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ عام لوگوں کو فائدہ ہو۔وقفہ سوالات کے دوران وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ مجھے کووڈ کی علامات ہیں لیکن اس کے باوجود میں ایوان کے احترام میں موجود ہوں اور اراکین کے تمام سوالات کے جوابات دینے کیلیے تیار ہوں۔وزیر توانائی نے بتایا کہ انہیں علامات ہیں لیکن ٹیسٹ پازیٹیو نہیں ہے، ممبر قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ایسا نہ کریں آپ ٹیسٹ کرائیں۔اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے وزارت توانائی کے سوالات ملتوی کرادیے اور اویس لغاری ایوان سے روانہ ہوگئے۔

وفاقی وزیر مصدق ملک نے وقفہ سوالات پر جوابات دیتے ہوئے یوان کو بتایا کہ ہم پٹرول ڈالر میں خریدتے ہیں اور بیچتے روپے میں ہیں،جب سے حکومت آئی ہے ڈالر اور روپے کی قدر میں توازن آیا ہے، مئی سے لیکر آج تک تیل کہ قیمت میں47 روپے کمی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ تیل کی قیمتوں کی کمی کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتے،ایرانی تیل کی اسمگلنگ بتدریج کم ہورہی ہے،سمگلنگ کو ریگولرائز کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، ہمارے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش 21 دن کی ہے۔سوالات کا جواب دیتے ہوئے مصدق ملک نے کہاکہ ہمارے گیس کے ذخائر میں دن بدن کمی ہورہی ہے، اگر اضافی کنکشن دیں گے تو گیس نہیں ملے گی، امپٹورٹڈ گیس جس قیمت پہ آتی ہے وہ آپ خریدنے کیلئے تیار نہیں ہیں، پچھلی حکومت نے گیس کنکشنز پہ پابندی لگائی لیکن یہ درست اقدام ہے۔