نئی دہلی(صباح نیوز) بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر میں اسمبلی ا نتخابات میں کامیابی اور حکومت بنانے کے خواب کی تعبیر کے لیے سیاسی جوڑ توڑ شروع کر دیا ہے ۔جموں و کشمیر میں تین مرحلوں میں 18 ستمبر، 25 ستمبر اور ایک اکتوبر کو انتخابات ہوں گے۔
دی وائر کے مطابق ، مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری سیاسی جوڑ توڑ بی جے پی کے ملک کے واحد مسلم اکثریتی علاقے میں حکومت بنانے کے خواب کا حصہ ہے، جہاں اسے لگتا ہے کہ رشید جیسے چھوٹے کھلاڑی اس کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے حامیوں میں کئی آزاد امیدواروں کے ساتھ دیگر چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی شامل ہیں۔دہلی کی ایک عدالت نے شمالی کشمیر کے لوک سبھا ایم پی انجینئر رشید کو عبوری ضمانت دے دی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ چال کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کشمیر میں ایک نئے انتخابی مساوات کے طور پر حریت پسند نظریات کو مرکزی دھارے کے روپ میں پیش کرے گی،جسے حال ہی میں رشید کی پارٹی کی جانب سے مشتہر کیاگیا ہے۔انتخابی مہم کے لیے وقت پرکشمیر کے انتخابی منظرنامے میں رشید کی موجودگی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) اور این سی جیسی روایتی مرکزی دھارے کی تنظیموں میں ہلچل پیدا ہونے کا امکان ہے، جنہوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بھارتی حکومت کو گھیرا تھا
پی ڈی پی سربراہ اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی، جن کے دو نوجوان لیڈر شوپیاں سے راجہ وحید اور ترال سے ہربخش سنگھ نے حال ہی میں اے آئی پی میں شمولیت اختیار کی ہے، نے سوموار کو رشید کو بی جے پی پراکسی قرار دیا۔مفتی کا یہ تبصرہ جنوبی کشمیر کے شوپیان اسمبلی حلقہ سے ان کی پارٹی کے امیدوار یاور شفیع بندے کے اے آئی پی کارکنوں کے مبینہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس سلسلے میں، پولیس نے بعد میں کہا کہ انہوں نے دونوں جماعتوں کے درمیان ہاتھاپائی کا نوٹس لیا ہے، لیکن کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں رشید کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنے والے عمر عبداللہ نے دعوی کیا تھا کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ان کے خلاف سازش کی تھی۔گزشتہ ہفتے وسطی کشمیر کے گاندربل میں ایک انتخابی ریلی کے دوران رشید کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، جب میں نے بارہمولہ سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا ، تو ایک امیدوار جو سلاخوں کے پیچھے تھا، نے میرے خلاف پرچہ نامزدگی داخل کیا۔ یہ ایک عجیب انتخاب تھا۔ میں جانتا تھا کہ دہلی کے لیڈر مجھے پسند نہیں کرتے۔ لیکن اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔