کیا فاٹا سیکرٹریٹ میں بادشاہ بیٹھے ہیں، کس قانون کے تحت ریڈیو اسٹیشن کا لائسنس دیا، ہم اِس کوکالعدم قراردے دیتے ہیں، چیف جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کیا فاٹا سیکرٹریٹ میں بادشاہ بیٹھے ہیں، کس قانون کے تحت ریڈیو اسٹیشن کا لائسنس دیا، ہم اِس کوکالعدم قراردے دیتے ہیں، یاکہیں میں بادشاہ ہوں جومیری مرضی آئے میںکروں، کس قانون کے تحت فاٹاسیکرٹریٹ نے عنایت کردی، پلیز تقریر نہ کریں، اُدھر دہشت گردی تھی، اُدھر نہ جائیں۔ درخواست پر ڈیڑھ اینٹ کی عمارت کھڑی ہے وہ نہیں دکھارہے، ہمارے پاس علم غیب نہیں، اپنی درخواست چھپاکیوں رہے ہیں، دنیا بھر میں لے جائیں گے اپنی درخواست نہیں دکھائیں گے۔ کیا سب کچھ انڈر دی ٹیبل ہوا۔ کیسے پورے علاقہ کی اجازت دے سکتے ہیں،

پیمرانے کہا ہے آئیں بولی میں حصہ لیں، اجارہ داری کے حقوق تونہیں دے سکتے ہیں،آپ کااسٹیشن بند تونہیں کیا، کیا فری میں اجازت دے دیں، یہی مانگ رہے ہیں۔ کیا چیز ہے، کس چیز کاالیکشن ہونا تھا، صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یاسینیٹ کاالیکشن ہونا تھا، کچھ توبتائیے ہمیں کیسے پتا چلے گا۔ وکیل بنیں، جعلی، جعلی، جعلی جوعام لوگ باتیں کرتے ہیں وکیل ایسا نہ کریں، فیک بوگس، فیک، بوگس، قانون کی بات ہی نہیں کررہے، کوئی آرڈر نہیں دکھارہے، کیا قانون میں گنجائش ہے کہ ایک ہی معاملہ پر دومربتہ کیس دائر کریں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نےپیمرا آرڈیننس 2002کے سیکشن 30-Aکے تحت ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کی ریگولرائزیشن کے معاملہ پر آفریدی بزنس نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ، ضلع خیبر اوردیگر کی جانب سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے قاضی جواداحسان اللہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پیمرا کی جانب سے سید حاذق علی شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل ضلع خیبر میں ریڈیو اسٹیشن چلارہے ہیں، 12جنوری2012کو فاٹاسیکرٹریٹ سے منظوری لی گئی تھی اس وقت فاٹا کاخیبرپختونخوامیں انضمام نہیں ہواتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں ایشونہ بتائیں، ہمارے سوالوں کے جواب دیں، پیمرااشتہاردے گااورآپ بھی اُس میں بولی دینے کے حقدارہیں، ہم کیسے اس میں مداخلت کریں، درخواست گزارکو کیسے پیمراکے اس حکم سے رنجش ہوسکتی ہے، کیسے پورے علاقہ کی اجازت دے سکتے ہیں، پیمرانے کہا ہے آئیں بولی میں حصہ لیں، اجارہ داری کے حقوق تونہیں دے سکتے ہیں،آپ کااسٹیشن بند تونہیں کیا، کیا فری میں اجازت دے دیں، یہی مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے جج نے کہا ہے اپیل کردوآپ وہ بھی نہیں کررہے، ہم کوئی آبزرویشن دیں گے توآپ کی اپیل بھی جائے گی۔

وکیل کاکہنا تھا کہ مجھے فاٹاسیکرٹریٹ نے لائسنس دیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس قانون کے تحت دیا ہے، ہم اِس کوکالعدم قراردے دیتے ہیں، یاکہیں میں بادشاہ ہوں جومیری مرضی آئے میںکروں، کس قانون کے تحت فاٹاسیکرٹریٹ نے عنایت کردی، پلیز تقریر نہ کریں، اُدھر دہشت گردی تھی، اُدھر نہ جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا انڈر دی ٹیبل ہوا، سب کچھ انڈر دی ٹیبل ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ابھی درخواست دستاویزات لگانے کے لئے وقت مانگیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست پر ڈیڑھ اینٹ کی عمارت کھڑی ہے وہ نہیں دکھارہے، ہمارے پاس علم غیب نہیں، اپنی درخواست چھپاکیوں رہے ہیں، دنیا بھر میں لے جائیں گے اپنی درخواست نہیں دکھائیں گے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ پیمراکادائرہ فاٹا تک وسیع ہوگیا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جلد سماعت کی درخواست ہم نے سن لی، میں کیس کی سماعت بنیاد سے کرتا ہوں، بنیاد درخواست سے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم تکنیکی بنیاد پر درخواست اڑاسکتے ہیں، پیمرانے حق میں فیصلہ دیا ہے کیوں خراب کررہے ہیں، یہ فیئر آرڈر ہے،بولی دے دینا، کل کوکوئی اسمبلی میں معاملہ اٹھادے گا کہ پیمرا من پسند لوگوں کو لائنس جاری کرتاہے، کیا فاٹا سیکرٹریٹ میں بادشاہ بیٹھے ہیں، ہماری آبزرویشنز درخواست گزارکامستقبل میں کیس خراب کردیں گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کل تک سماعت ملتوی کرسکتے ہیں۔ اس دوران پیمراوکیل نے بتایا کہ ہم نے بولی کاسارا پراسیس کردیا ہے، سب سے زیادہ بولی 7کروڑ38لاکھ آئی ہے، ہم نے درخواست گزارکو آفر کی تھی کہ 15روز میں پیسے دے دیں تاہم انہوں نے نہیں دیئے اوروہ آفر ختم ہوگئی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کواپنے مئوکل سے ہدایات لینے کے لئے کل تک کاوقت دیتے ہوئے سماعت آج (جمعہ )تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے رائو محمد بشیر کی جانب سے مینجمنٹ کمیٹی(ڈیفنکٹ)، نیشنل کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی لمیٹڈ اوردیگر کے خلاف سوسائٹی الیکشن کوکالعدم قراردینے کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست گزار کی جانب سے عمران محمد سرورایڈووکیٹ بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ لاہوررجسٹری سے پیش ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ الیکشن ہوگئے کہ نہیں، نئے الیکشن ہوئے ہیں کہ نہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 20دسمبر 2021کو انتخابات ہوئے اور تھے منتخب باڈی کی مدت تین سال بعد 20دسمبر 2024کو ختم ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوئی شیڈول ہو گاوہ بتائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا چیز ہے، کس چیز کاالیکشن ہونا تھا، صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یاسینیٹ کاالیکشن ہونا تھا، کچھ توبتائیے ہمیں کیسے پتا چلے گا۔  وکیل کاکہنا تھا کہ سوسائٹی کے رجسٹرارکاالیکشن ہونا تھا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ نمبر1الیکشن جیتے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ 21دسمبر2021کانوٹیفکیشن دکھایئے، درخواست گزارثابت کریں کہ ہائی کورٹ میں درخواست کس طرح قابل سماعت تھی، مدعاعلیہان نظرثانی میں ہائی کورٹ گئے اوران کی درخواست منظور ہوئی اوردرخواست گزاراس کے خلاف سپریم کورٹ آگئے، ہائی کورٹ فیصلے میں کیا غلطی ہے وہ بتادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے وکیل کسی قانون کاحوالہ نہیں دے رہے بس کھڑے ہوکربیان دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ وکیل بنیں، جعلی، جعلی، جعلی جوعام لوگ باتیں کرتے ہیں وکیل ایسا نہ کریں، فیک بوگس، فیک، بوگس، قانون کی بات ہی نہیں کررہے، کوئی آرڈر نہیں دکھارہے، کیا قانون میں گنجائش ہے کہ ایک ہی معاملہ پر دومربتہ کیس دائر کریں۔

چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم یہاں کسی کووقت نہیں دیتے اپنا کیس چلائیں، ہمیں اونچا تونہیں سنتا کہ بار ، بار کہہ رہے ہیں التوادے دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم آئندہ سال جنوری تک کاوقت دے دیتے ہیں اُس وقت تک منتخب باڈی اپنا وقت پورا کرلے گی، آپ خوش قسمت ہیں 2024کا کیس سماعت کے لئے مقررکردیا۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار نے رجسٹرار کوآپریٹوز پنجاب کو درخواست جو 7اپریل 2023کوخارج ہوئی اوراس پر نظر ثانی بھی خارج ہوئی۔درخواست گزارنے دوبارہ ایک ہی معاملہ پر درخواست دی اور رجسٹرارکوآپریٹز سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ، نظرثانی میں فیصلہ درخواست گزار کے خلاف آیا جس کے بعد درخواست گزارنے لاہو رہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جو منظور ہوئی تاہم نظرثانی میں لاہور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیا۔ درخواست گزارنے 20دسمبر2011کے انتخابات کانوٹیفیکیشن اورنتائج نہیں لگائے، درخواست گزارکو نوٹیفیکیشن اورعدالتی حکم درخواست کے ساتھ لگانا چاہیئے تھا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔