راولپنڈی (صباح نیوز)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹرجنرل (ڈی جی )لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ فتنہ الخوارج اور دہشتگردی کے خلاف جنگ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گی،دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں، بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والوں اور کرانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، انسدادِ دہشت گردی کی جنگ مربوط حکمتِ عملی کے تحت لڑی جا رہی ہے، پاک آرمی قومی فوج ہے جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت ہے نہ مخالف، پاک فوج خود احتسابی کے نظام پر یقین رکھتی ہیں۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ پ پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات ثابت ہونے پر لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد قومی سلامتی کے معاملات، خطے کی داخلی سلامتی سے جڑے معاملات اور دہشت گردی کے خلاف کئے گئے اقدامات کا احاطہ کرنا ہے ، سب سے پہلے فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جائزہ پیش کرنا ہے، دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف اس سال32 ہزار 173 آپریشنز کئے ۔انہوں نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران 90 خوارج کو ہلاک کیا گیا، دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کئے جا رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران 193 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، قوم شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، آخری خارجی اور دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 20 اگست سے وادی تیراہ میں فتنہ الخوارج، نام نہاد کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور جماعت الحرار کے خلاف کامیاب آپریشن کیا گیا، کامیاب آپریشن کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کو بڑا دھچکا لگا، کارروائیوں کے دوران انتہائی مطلوب خارجی ابوذر المعروف صدام سمیت 37 خوارج کو ہلاک کیا گیا جبکہ 14 دہشت گرد زخمی ہوئے، اس دوران ہمارے 4 بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔انہوں نے کہا کہ 25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں اندورن، بیرون ملک دہشت گردوں کی ایما پر کی گئیں، ان کا مقصد معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے، فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، اس دوران 14 جوان شہید ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے، جس کو بیرونی ایما پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، وہ اس کو اس لئے اسپلائٹ کرتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف وہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی، جب ترقی نہیں ہوگی تو اس سے احساس محرومی اور ریاستی در اندازی کا بیانیہ مزید بڑھے گا، دہشت گردوں کے سر پرست ریاست کو مزید مورد الزام ٹھہرائیں گے اور گھنائونے عمل کو جاری رکھ سکیں گے، 25، 26 اگست کی رات کو ہونے والے واقعات اسی بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے کھیل کا حصہ تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ کرنے والوں، کرانے والوں کا انسانیت اور بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہتے شہریوں کو ظلم کا نشانہ بنانا اور اس پر فخر ان کی ذہنیت اور مایوسی کی عکاسی ہے، دہشت گردوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ترقی کے دشمنوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ پاک آرمی قومی فوج ہے جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت ہے نہ مخالف، پاک فوج خود احتسابی کے نظام پر یقین رکھتی ہیں، اس کا خود احتسابی کا نظام انتہائی جامع اور مضبوط عمل جو ٹائم ٹیسٹڈ ہے، یہ الزامات کے بجائے، ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے، جب بھی فوج میں قائم قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ خود کار نظام حرکت میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 اگست کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے حوالے سے بتایا گیا تھا، ریٹائرڈ افسر کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں باضابطہ طورپر درخواست موصول ہوئی، اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے اعلی سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا، تاکہ مکمل تحقیقات کی جاسکے۔انہوںنے کہا کہ ٹھوس شواہد پر مبنی تفصیلی انکوائی مکمل ہونے کے بعد 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ متعلقہ ریٹائرڈ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے، ان بنیادوں پر فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ ایک منظور شدہ اور مربوط حکمت عملی کے تحت لڑی جارہی ہے، مختلف سیاسی جماعتوں، سٹیک ہولڈرز اور تمام حکومتوں نے اس حکمت عملی کو مرتب کیا ہے ،یہ نیشنل ایکشن پلان اور ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان اور اب عزم استحکام کے نام سے ایک دستاویزی شکل میں بھی موجود ہے، اس کے اندر جو افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام ہیں وہ بھی ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کئے جاتے ہیں، اس کے چار مراحل ہیں کلیئر، ہولڈ، بلڈ اور ٹرانسفر تو جو دہشتگردی بڑھ رہی ہے ہمیں سمجھنا ہوگا کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس مربوط حکمت عملی کے تحت جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج نے کام کرنا ہے کہ دہشگردوں سے علاقوں سے ختم کرنا اور ان کو عارضی طور پر ہولڈ کرنا تاکہ وہاں پر باقی عہدیداران ہیں، انتظامیہ ہے وہاں پر اس کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ جس میں اگروہ سماجی اور معاشی منصوبے لگائے اور پھر اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں لے۔ احمد شریف چوہدر ی نے کہا کہ اس میں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج ہے اس نے دو دہائیوں سے زیادہ دہشتگردی کی جنگ لڑی ہے اس میں 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو دہشتگردوں سے کلیئر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس لئے ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عملاً ایسا علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی اجارہ داری ہو، تو جو کلیئر اور ہولڈ کے مراحل ہیں وہ تو مکمل ہو چکے ہیں، انٹیلی جنس بیسڈ چھوٹے بڑے تمام آپریشنز جو قانون نافذ کرنے والے اداروں جس میں پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز بھی شامل ہے یہ اسی کو مزید تقویت اور دوام دینے کے لئے کئے جاتے ہیں۔اب جو بلڈ اور ٹرانسفر کا کام ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا یہ عزم ہے کہ اس کو مکمل ہونے کی ضرورت ہے اور اس میں جو ذمہ داری ہے وہ لوکل گورنمنٹ اور صوبائی حکومت کی ہے کیونکہ اس میں انہوں نے صحت کے تعلیم کے روزگار کے سماجی منصوبے لانے ہیں تاکہ عوام کو ایک روز مرہ کی زندگی میں مصروف کیا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان فوج بڑھ چڑھ کر صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی اعانت کرتی ہے۔