مولانا فضل الرحمن کا بلوچستان، خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفود بھیجنے کا مطالبہ

اسلام آباد (صباح نیوز)سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل  پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفود بھیجنے کا مطالبہ کردیا،سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی ، لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے، اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہے ، صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے ان کے حقوق کوتسلیم کریں قبائلی اضلاع میں قیمتی  معدنیات اور وسائل  پر قبضہ کے لئے  قبائل پر جنگ مسلط کی گئی ہے پارلیمینٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے،سیاستدانوں کوسائیڈ لائن کرنا ترک کردیں،  بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے معاملات ان کے حوالے کردیں حل نکل آئے گا  تمام معاملات میں خود کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر یا امرت دھار سمجھ لینا خواہش ہوسکتی ہے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا  ۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو با اختیار بنا ؤ، سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جارہی ہے، سیاستدانوں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے اور ظاہر ہے اس کی جگہ نئے نوجوان لیں گے مگر وہ تجربہ نہیں رکھتے اور جذباتی ہوتے ہیں اس سے معاملات اتنے الجھ جاتے ہیں کہ اس گتھی کو سلجھانا مشکل ہوجاتا ہے، سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کے لیے فیصل آباد کا گھنٹا گھر بن جانا یہ شاید ایک خواہش ہوسکتی ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔انہوں نے بتایا کہ  چین، امریکہ، سی پیک سرمایہ کاری  یہ سب معاملات ہیں جن کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔

ڈیرہ اسمعیل خان، لکی مروت  سے بلوچستان تک سی پیک کا علاقہ مسلح قوتوں کے قبضہ میں ہے، وہاں کوئی کام نہیں ہوسکتا، حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ کچھ علاقوں میں آج اسکولوں اور کالجوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جاسکتا، پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا، یہاں تک صورتحال خراب ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے میں افغانستان گیا وہاں باہمی تجارت، افغان مہاجرین پر بات چیت کی ، میں افغانستان سے کامیاب ہو کر واپس لوٹا تھا، ہم ذمہ داریاں کسی اور پر ڈال دیں، اس طرح نہیں چلے گا۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے، کچے کی صورتحال کو دیکھ کر پریشان ہیں، پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ آگے بڑھیں اور ان سے گفتگو کی جائے، جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو ہم جا کر وہاں صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں ارکان پارلیمان دونوں صوبوں میں جائیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں ایک اہم مسئلہ ہے، اس پر بات چیت ہونی چاہیے ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں بتائیں کہ ان کے پیارے اس وقت کہاں ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ لوگ   فوج  پر اعتبار کریں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ  مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، لوگوں کو روزگار نہیں دے پارہے ہیں، پاک پی ڈبلیو ڈی اور یوٹیلیٹی اسٹور کو ہم ختم کررہے ہیں، ہم اس طرح کے قوانین کو ایوان میں مسترد کریں گے، یہی سب دیکھ کر سردار اختر مینگل نے استعفی دے دیا ہے، آپ واضح ہدایت دیں کہ یہ ایوان مضطرب ہے، ہم یہاں ملک و قوم کی خدمت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، ہم لڑیں گے، تنقید کریں اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن ملک کو ضرورت پڑی تو اپنا کردار نبھائیں گے، پارلیمان، سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ملک کے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں ملک کی کسی بھی خدمت کے لئے حاضر ہوں۔انہوں نے دریافت کیا کہ کیا حکومت کے پاس فیصلوں کا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس صلاحیت ہے فیصلہ کرنے کی یا اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود بات چیت کرے اور ملک کے اندر اضطراب کو ختم کرے، ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ ہمارے مفادات کی جنگ نہیں، عالمی قوت اس کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔