مونال اوردیگر ریسٹورنٹس کی جانب سے دائرنظرثانی درخواستوں پر دلائل مکمل ، فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیشنل پارک، اسلام آباد میں موجود مونال اوردیگر ریسٹورنٹس کی جانب سے دائرنظرثانی درخواستوں پرفریقین کے وکلاء کے دالائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جوکہ بعد میں سنایاجائے گا۔

دوران سماعت کیپیٹل ویو پوائنٹ ریسٹورنٹ(لا مونتانا)کے وکیل سن 2000کے بعد لائسنس کی تجدید کاکوئی ثبوت فراہم نہ کرسکے۔ جبکہ سن شائن ہائیٹس پرائیویٹ لمیٹڈ ، اسلام آباد کے وکیل بھی سی ڈی اے سے معاہدے کاکوئی ثبوت نہ دکھاسکے۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ مونال کوچھوٹا ساکھوکھا دیا پورا محل بنادیا۔ اگر مونال کے مالک قبضہ برقراررکھنا چاہتے ہیں توہمیں پتا ہے اپنے احکامات پر عملدرآمد کیسے کروانا ہے، پاکستان کے قانون کامذاق اڑایا جارہا ہے، سارے پارکس کوکھاجائیں، پیسہ کماررہے ہیں کوئی خدمت نہیں کررہے۔ بڑے لوگ میرے دوست ہیں پاکستان کاقانون جائے بھاڑ میں۔

اس حکم کی روشنی میں ہائی کورٹ میں زیر التوانٹراکورٹ اپیل مسترد، ہم نے ایک رکنی بینچ کے فیصلے کی توثیق کی ہے، اگر مستقبل میں بھی کوئی درخواست دائر کی جائے گی وہ بھی غیر مئوثر ہوگی۔ وکیل کی جانب سے 1954کاذکرکیا گیا ہم لوگوں کوآئین پر لارہے ہیں، لوگ جرنیلوں کے ساتھ مارشل لاء میں چپک جاتے ہیں۔ جس علاقہ کوتحفظ حاصل ہے وہاں کیسے ریسٹورانٹ چلارہے ہیں وہ دکھادیں۔ نیشنل پارک پر کس طرح قبضہ کررکھا ہے۔ ہمارابڑاتکلیف دہ کام ہے، کبھی ، کبھی چبھتے ہوئے سوال پوچھنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں، کا م میں وفاداری نظرآنی چاہیئے۔ جبکہ چیف جسٹس کانعیم بخاری کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے اوپر انگلیاں کھڑی نہ کریں۔

اس پر نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ میں چیف جسٹس کی جانب سے آواز اونچی کرنے سے خوفزدہ نہیں ہوسکتا۔ جبکہ چیف جسٹس کاوزارت دفاع کے قانونی مشیر برگیڈیئر (ر)فلک ناز بنگش کو توہین عدالت کانوٹس جاری کرنے کاانتباہ۔ مائی ، مائی کیوں کررہے ہیں، اپنی انا کم کریں اور قانون کوبڑا کریں۔ جو لکھا ہے وہ پڑھ دیں، کدھر مسز، فیملی لکھا ہے وہ پڑھیں، اخبارکی سرخیاں لگوانا چاہتے ہیں اس کی اجازت ہم نہیں دیں گے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جنگلی حیات کاکوئی وکیل نہیں ہم ہی ان کے وکیل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل3رکنی بینچ نے مونال ریسٹورنٹ ، کیپیٹل ویو پوائنٹ ریسٹورنٹ(لا مونتانا)،اسلام آباد، سن شائن ہائیٹس پرائیویٹ لمیٹڈ ، اسلام آباد، ڈاکٹر محمد امجداور برگیڈیئر (ر)فلک ناز بنگش کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں وفاقی ترقیاتی ادارے(سی ڈی اے)اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ فریقین کی جانب نعیم بخاری ایڈووکیٹ، سردار تیمور اسلم خان اور خرم رضا ایڈووکیٹ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وزارت دفاع کے قانونی مشیر برگیڈیئر (ر)فلک ناز بنگش نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیئے۔نعیم بخاری کاکہناتھا کہ وہ ڈاکٹر محمد امجد کی نمائندگی کررہے ہیں جن کے کیپیٹل ویوپوائنٹ (لا منتانا)میں 66فیصد شیئرز ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کون سی درخواست پہلے چلائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ پہلے کون دلائل دے گا۔ چیف جسٹس کا نعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے اتقاق رائے سے حکم جاری کیا تھا ، تین ماہ کاوقت لیا تھا، آپ جوان آدمی ہیں ہم بوڑھے ہیں۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ ان کے بیٹے نے بار ایٹ لاء کیا ہے اوروہ اسے ساتھ لے کرآئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے والا آرڈر دکھائیں جو اتفاق رائے سے پاس کیا تھا۔ اس کے بعد نعیم بخاری نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کرسنایا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر اقلیتی شیئرز رکھنے والے شخص نے عدالت میں کوئی یقین دہانی کروائی ہے اوراکثریتی شیئرز والے سے نہیں پوچھا توہم یہ آرڈرکرسکتے ہیں کہ اکثریتی شیئرز والا اقلیتی شیئرز والے کے خلاف عدالت جاسکتا ہے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ راجہ محمداختر عدالت کے سامنے تھا جو کہ 17فیصد شیئرز کامالک تھا جبکہ ڈاکٹر محمد امجد بیرون ملک تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہی کسی سے پوچھیں آپ کاکتنا حصہ ہے۔ چیف جسٹس کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ سنجیدہ ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں یہ گیمیں دیکھی ہیں، ہم نے کھلی عدالت میں حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے کیس تک محدود رہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ موجود ہی نہیں تھے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ صرف راجہ اختر موجود تھا۔ چیف جسٹس کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب تک آپ نے اپنے بیٹے کو متاثر کرنے کے لئے کوئی پوائنٹ نہیں بنایا۔

نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ قلم آپ کے ہاتھ میں ہے میرے ہاتھ میں نہیں۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ یہ اتفاق رائے کاحکم نہیں کہ یا گرائیں یا 3ماہ میں خالی کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مارگلہ ہلزہمارا، آپ کااورسی ڈی اے کانہیں بلکہ یہ پاکستان کے لوگوں کی ملکت ہے، اس میں جانوررہتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے اوپرسپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کافیصلہ ماننا لازم ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کاحکم بھی نہیں مانا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مئوکل کو عدالتی کاروائی کاعلم تھا پیش کیوں نہیں ہوئے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ ان کے پاس رجسٹرڈ پارٹنرشپ ہے جس میں ڈاکٹر محمد امجد کے 66فیصد زشیئرز ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کل کوکوئی اورآکرکھڑاہوجائے گا کہ میں کیپیٹل ویوریسٹورانٹ کامالک ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل کسی سوال کاجواب نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نعیم بخاری کیسے دوحصہ داروں کی وکالت کرسکتے ہیں جن کامتضاد مئوقف ہے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ مجھے شفاف اور بامعنی سماعت نہیں دی گئی۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس علاقہ کوتحفظ حاصل ہے وہاں کیسے ریسٹورانٹ چلارہے ہیں وہ دکھادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی مختلف دائرہ اختیار ہے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں ،ایک کان سے ڈورا ہو گیااہوں اس لئے فون بھی نہیں سنتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 1999میں 11677روپے کرایا تھا اوریہ لائسنس 2000تک کاتھا، تجدید دکھائیے۔ چیف جسٹس کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کابیٹا کہاں رہتا ہے۔ اس پر نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ اسلام آباد میں رہتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ اپنے بیٹے کو نیشنل پارک کے ویو سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ توغیر قانونی قابض ہیں،2000میں لائسنس ختم ہوگیا، 2000کے بعد کالائسنس دکھائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر تسلیم نہیں کرتے کہ لائنس نہیں ہے تولائسنس دکھائیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ آبزرویشنز کے علاوہ بینچ کے پاس کیاثبوت ہے کہ میرے پاس لائسنس نہیں۔ چیف جسٹس کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسٹر نعیم بخاری آریوسیریس۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیسے چیزیں مینج ہوتی ہیںیا مینی پولیٹ ہوتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ لائسنس کی شرائط پرآجائیں، کدھر مزید تجدیدہوئی ہے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ 2018میں مجھے ایف آئی اے کی جانب سے تجویز کی گئی اضافہ شدہ فیس جمع کروانے کاکہا گیا۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ میری زندگی میں میرے ملک میں بہت سی چیزیں ہوئی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہی توالمیہ ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بہت سی چیزیں ہوتی ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے، کبھی کبھی لوگ اپنے خلاف بھی کیس دائر کروالیتے ہیںکہ کیس دائر ہوگاتونوٹس آجائے گا، آپ کو جو سروس ملی اس سے میںبڑا متاثر ہوا ہوں۔چیف جسٹس کانعیم بخاری کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے اوپر انگلیاں کھڑی نہ کریں۔ اس پر نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ میں چیف جسٹس کی جانب سے آواز اونچی کرنے سے خوفزدہ نہیں ہوسکتا۔ نعیم بخاری کاچیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کیس کافیصلہ ابھی آپ نے دیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں یہ نہ بتائیں1954میں کیا ہواتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 17فیصد کاکون مالک ہے کل کو وہ عدالت آجائے گا۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد امجد 66فیصد شیئرز کے مالک ہیں، راجہ محمد اختر17فیصد اورشوکت کریم 17فیصد کے مالک ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر وکیل سنجیدہ نہیں توہم کیا کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ غیر رجسٹرڈ شدہ فرم ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ میری ذمہ داری نہیں کہ سپریم کورٹ میں قانون کی کلاس منعقد کروائوں۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ مونال کی طرح کبھی میں نے کیس دائر نہیں کیا، مجھے ہائی کورٹ نے بھی نہیں بلایا، ہم نے خود تعمیرات کی ہیں اورسی ڈی اے کی منظوری سے تعمیرات کی ہیں، نیوی، نیوی گالف کورس اور مونال کے بارے میں جوکچھ بھی کہا ہے ہائی کورٹ نے کہا ہے میرے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نیشنل پارک پر کس طرح قبضہ کررکھا ہے، آپ غیر قانونی قابض ہیں، ایک سال کامعاہدہ تھا کل کوکوئی سپریم کورٹ پر کوئی قبضہ کرلے گا ، پارلیمنٹ کے لان پر قبضہ کرلے ، اس کے لئے کمشنراسلام آباد کا اجازت نامہ دکھائیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ طنز نہ کریں جواب دیں۔

نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس نے فیصلے میں ڈاکٹر محمد امجد کے حوالہ سے ذاتی معلومات لکھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس بات سے اختلاف ہے وہ بتادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 1954کاذکرکیا گیا ہم لوگوں کوآئین پر لارہے ہیں، لوگ جرنیلوں کے ساتھ مارشل لاء میں چپک جاتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد امجد نے10اگست2018کو پرویز مشرف کی پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دیااور2019میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اورڈاکٹر محمد امجد 2008میں نگران وزیر بھی رہے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ محمد میاں سومروکی نگران وزارت عظمیٰ کے دور میں ڈاکٹر امجد وزیر تھے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پھر بھی آپ کے بڑے لوگوں سے تعلقات نہیں تھے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یا ذاتی حیثیت میں دلائل دیں یا مئوکل کی جانب سے دلائل دیں ، میڈیا موجود ہے باہر جاکرتقریرکریں، ہمارے سامنے کیس پر دلائل دیں۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر امجد کوسنا نہیں گیا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا وکیل کے خلاف کاروائی کے لئے پاکستان بار کونسل میں شکایت درج کروائی، پاکستان بار کونسل کودرخواست دیں کہ میراکیس تباہ کردیا میں اس وکیل کوجانتا نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چلیں اب دوسروں کو سن لیتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جوواحد دستاویز درخواست گزار کے حق میں ہے وہ لائسنس ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 16سے35فٹ تعمیر کی اجازت دی گئی تھی، لائسنس دکھائیں جوآپ کواجازت دیتا ہے۔ نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ میں 23سال سے اسلام آباد میں رہ رہا ہوں، میرے پاس 99سال کی لیز ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 16فٹ اور35فٹ سے زیادہ جگہ نہیں بناسکتے۔ چیف جسٹس کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو کافی سن لیا ہے۔ وکیل کاکہناتھا کہ سی ڈی اے اسلام آباد میونسپل کارپوریشن مجھے باہر کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ کااختیار ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اچھے روابط والے لوگ کیسے اپنے کام کروالیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کو تباہ کررہی ہے، نیشنل پارک کی وجہ سے مارگلہ روڈ سب سے مہنگی جگہ ہے، چوکی کے لئے جگہ دی تھی پورامحل بنالیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے مالک نہیں، ہمیں کوئی پراوہ نہیں کہ سی ڈی اے کیا کہتا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے 18141فٹ جگہ دے رہا ہے جس کاکوئی لائسنس نہیں۔اس موقع پر نعیم بخاری نے اپنے بیٹے کو بلایا تاہم وہ کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ آپ اپنے بیٹے کومتاثر نہیں کرسکے اس لئے وہ باہر چلا گیا۔نعیم بخاری کے دلائل کے بعد برگیڈیئر (ر)فلک ناز بنگش نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیئے۔برگیڈیئر (ر)فلک ناز بنگش کاکہنا تھا کہ مجھے چند منٹ دے دیں۔

اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مونال سے معاہد ہ کرنے والی فائل آپ لائے ہیں، ہم توہین عدالت کانوٹس بھی دے سکتے ہیں، جب اہم لوگ ملوث ہوتے ہیں توفائلیں غائب ہوجاتی ہیں، ہم آپ کے ساتھ کچھ اورنہ کردیں، میجر جنرل محمد سالک ثمریز نے 30ستمبر2019کو مونال کے ساتھ معاہدہ کیا آپ وہ فائل لے آئیں، ہوسکتا ہے توہین عدالت کانوٹس جاری ہوجائے، لکھ کردیں فیصلے میں کس چیز کی وضاحت کی جائے، اس سے زیادہ ہم آگے جائیں گے۔ چیف جسٹس کا برگیڈیئر (ر)فلک ناز بنگش سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ، آپ کی کون سی درخواست ہے، کورٹ مارشل یا کسی اورچیز کافیصلے میں ذکر نہیں اِس پر نظر ثانی مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مائی ، مائی کیوں کررہے ہیں، اپنی انا کم کریں اور قانون کوبڑا کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اِس آرڈر میں غلطی کیا ہے وہ جملہ بتادیں، اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کروایا اورمیجر جنرل محمد سالک ثمریز کی جانب سے کئے گئے معاہدے کوغیر قانونی قراردیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی نظرثانی دائر نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس کابرگیڈیئر(ر)فلک ناز بنگش سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ خود ہمارے سامنے پیش ہوتے ہیں ہم آپ کونہیں کہتے، چارج کا دفاع کرلیں ہم توہین عدالت کانوٹس دے دیتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سوری کرتے کہ ریمارکس حذف کردیں آپ دلائل دے رہیں۔ برگیڈیئر(ر)فلک ناز بنگش کاکہنا تھا کہ میری 35سالہ وکالت کی زندگی ہے، میرے ہزاروں شاگرد ہیں، مجھے ستارہ امتیاز ملا ہے، میری اہلیہ اوردیگر اہلخانہ نے غیر ملکی شہریت ترک کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو لکھا ہے وہ پڑھ دیں، کدھر مسز، فیملی لکھا ہے وہ پڑھیں، اخبارکی سرخیاں لگوانا چاہتے ہیں اس کی اجازت ہم نہیں دیں گے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں، کا م میں وفاداری نظرآنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب ہم نے کہا فائل پیش کری دو توسب جمگھٹا بن گئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اب ہم اگلے وکیل کوسنتے ہیں۔ مونال ریسٹورانٹ کے مالک لقمان علی افضل کے وکیل تیموراسلم خان پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بھی غیر قانونی طور پر قابض ہیں،کس طرح نیشنل پارک پر قبضہ کررکھا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 10،12کیس اوردائر کردیں ہم 100سال اوربیٹھے رہیں گے، ہائی کورٹ اورسی ڈی اے کے احکامات پر عمل نہیں کررہے۔ تیمور اسلم خان کاکہنا تھا کہ مونال کے مالک جگہ خالی کررہے ہیں۔ تیمور اسلم خان کا چیف جسٹس کے سوال پر کہنا تھا کہ میری عمر 33سال ہے اورمیراایک بیٹا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مونال کوچھوٹا ساکھوکھا دیا پورا محل بنادیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انسان خلیفہ فی الارض ہے، ہماری جانوروں ، پودوں اور حشرات کی بھی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ توہین عدالت کے الزامات کاسامنا بھی کررہے ہیں تاہم وہ کیس آج ہمارے سامنے نہیں، بھائی کابینہ سیکرٹری ہیں، جھونپڑی والے کوتوکوئی نہیں چھوڑے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی غلطی ہے توبتادیں، کیا قبضہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، سی ڈی اے کے مطابق ابھی بھی قابض ہیں۔ تیموراسلم خان کاکہنا تھا کہ میٹریل ہٹا لیا ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں زیر التوانٹراکورٹ اپیل ختم، غیر مئوثر ہوگئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر مونال کے مالک قبضہ برقراررکھنا چاہتے ہیں توہمیں پتا ہے اپنے احکامات پر عملدرآمد کیسے کروانا ہے، پاکستان کے قانون کامذاق اڑایا جارہا ہے، سارے پارکس کوکھاجائیں، پیسہ کماررہے ہیں کوئی خدمت نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بڑے لوگ میرے دوست ہیں پاکستان کاقانون جائے بھاڑ میں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس حکم کی روشنی میں ہائی کورٹ میں زیر التوانٹراکورٹ اپیل مسترد، ہم نے ایک رکنی بینچ کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔ اگر مستقبل میںبھی کوئی درخواست دائر کی جائے گی وہ بھی غیر مئوثر ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کس قانون کے تحت قابض ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معاہدہ کی تجدید کی۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ نہیں کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک منٹ کابھی وہاں بیٹھنے کااختیار نہیں ۔ چیف جسٹس کاتیمور اسلم خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چلیں بھائی تھینک یو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی میں دستاویز نہیں بلکہ فیصلے کاحوالہ دیا جاتا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مونال کے مالک نے خود پائوں پر کلہاڑی ماری۔ سن شائن ہائٹس کے وکیل خرم رضا کاکہنا تھا کہ اُس کے مئوکل کو 1996میں پلاٹ کی الاٹمنٹ ہوئی، 33سال کے لئے الاٹمنٹ ہوئی تھی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وہ دکھائیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھاکہ وہ نہیں لگائی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ انہوں نے کچھ نہیں بنایا ہوااورابھی تک اجازت کے چکر وںمیں ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس پر سرمایاکاری مت کرو، آپ کے پیسے بچادیتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ قبضہ میرے پاس ہے، سی ڈی اے نے قبضہ دیا ہے، رقم کی ادائیگی کاثبوت نہیں لگایا۔ چیف جسٹس کاکہنا ھا کہ نیشنل پارک ہے اِدھر آپ کنسٹرکشن نہیں کرسکتے، سی ڈی اے کودرخواست دے دیں کہ میرے پیسے واپس کردیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ ہم نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بغیر قانون توڑے گنجائش بنتی ہے توسی ڈی اے اورجگہ دے سکتا ہے، یہ تحفظ زدہ نیشنل پارک ہے اس کو تنہا چھوڑ دیں، یہ نیشنل پارک قراردیا گیا ہے ، پکنک پوائنٹ بنالیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کبھی، کبھی نیچے سی ڈی اے والے کام صیح کرتے ہیں پھر اوپر سے آرڈر آتاہے توبدل دیتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ مجھے جگہ کاقبضہ دینے کافیصلہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے رکن نوازعباسی نے دیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا ان جج صاحب کاایک اورفیصلہ ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ججز کوپلاٹ دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عدالتوں کوایسی مقدمہ بازی سے بچائیں، بدنامی ہوگئی ہے، عدالتوں کو الاٹمنٹ کے معاملات سے دور رکھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الاٹمنٹ لیٹر تومنسوخ ہوگیا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا 21جنوری2012کا حکم پڑھیں،آپ کادعویٰ سی ڈی اے کے فراڈپر مبنی لیٹر کانتیجہ ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کاپارک پر حق کیا ہے، ادائیگی دکھانہیں سکے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے کے پاس جائیں کہ پیسے واپس کردیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اپنے موئکل سے کہیں کل جاکرسپریم کورٹ کے باغ پر قبضہ کرلیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹائٹل کی کوئی دستاویز دکھائیں، بولی دکھائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے اخبار میں اشتہار آئے گا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے نیشنل پارک کے تحفظ کے لئے حکم دیا، وفاقی حکومت نے نیشنل پارک قراردیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جنگلی حیات کاکوئی وکیل نہیں ہم ہی ان کے وکیل ہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کے پیسے ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔ اس دوران نعیم بخاری نے روسٹرم پر آکر استدعا کی کہ مجھے تحریری دلائل جمع کروانے کی اجازت دیں۔

اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ کیسے کیسے خط آپ نکلوالیتے ہیں، سی ڈی اے، ویٹرنری ڈیپارٹمنٹ اور ایم سی آئی والے خدمت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تحریری دلائل میں صرف یہ لکھ دیں کہ میرے چیف جسٹس مسکرارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ہمارابڑاتکلیف دہ کام ہے، کبھی ، کبھی چبھتے ہوئے سوال پوچھنے پڑتے ہیں، جب میں وکالت کرتا تھا تو وہ جج مجھے اچھا ہی نہیں لگتا تھا جوسوال نہیں پوچھتا تھا۔ چیف جسٹس کانعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کوسنتے توہیں، ہماری سمجھ آپ سے کم ہے، نوٹس پڑھ لیں گے، یہ نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔