فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پرتعطل مزید برقرار نہیں رہے گا۔ رؤف حسن


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات و ترجمان رؤف حسن نے کہا ہے کہ ملک میں پرتشدد کارروائیوں کو روکنے، سیاسی افہام و تفہیم اور معاشی استحکام کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت اشد ضروری ہے اور اس کا آغاز فوری ہونا چاہیے، طاقت اس وقت حکومتی جماعتوں کے پاس نہیں بلکہ فوج کے پاس ہے لہذا ان ہی سے بات فائدہ مند ہوسکتی ہے۔

گزشتہ ماہ پولیس کی جانب سے گرفتاری اور حال ہی میں اپنی رہائی کے بعد اسلام آباد میں امریکی نشریاتی ادارے اپنے پہلے انٹرویو میں رؤف حسن نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈلاک اب مزید برقرار نہیں رہے گا،پی ٹی آئی ہمیشہ سے فوج سے بات کرنا چاہتی ہے اور اس بات چیت کے لیے ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں،بات چیت کا آغاز بغیر کسی تاخیر کے ہونا چاہیے۔ رؤف حسن نے کہا کہ یہ ریاست کے مفاد میں ہے کہ فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت ہو تاکہ ملک آگے بڑھ سکے،عوام نے الیکشن میں جیل میں قید عمران خان پر اپنے اعتماد کا واضح اظہار کیا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کی نفی کی گئی جس کا ازالہ ضروری ہے۔

ان کے بقول عوام کا مینڈیٹ حقیقی لوگوں کے پاس جانا چاہیے چاہے ایسا عدالتی عمل کے نتیجے میں ہو یا نئے انتخابات کے ذریعے۔ترجمان پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ ملک میں بہت پرتشدد کارروائیاں سامنے آ رہی ہیں، اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے سیاسی افہام و تفہیم کی اشد ضرورت ہے، اسی طرح اگر معاشی صورتِ حال کو دیکھا جائے تو سرمایہ کاری کی توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں، دوست ممالک سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ مزید قرض یا سرمایہ کاری نہیں کرسکتے، تمام شواہد اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے اور وہ صرف اسی صورت آئے گا جب پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔رؤف حسن کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہیں لانا چاہتے۔ لیکن زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا راستہ فوج سے بات چیت ہی میں ہے۔ان کے بقول طاقت اس وقت حکومتی جماعتوں کے پاس نہیں بلکہ فوج کے پاس ہے لہذا ان ہی سے بات فائدہ مند ہوسکتی ہے۔

ان کے بقول موجودہ حالات میں اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ملک کی سب سے بڑی جماعت اور ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے درمیان بات چیت ضروری ہے۔انٹرویو کے دوران جب روف حسن سے پوچھا گیا کہ بات چیت آگے بڑھانے کے لیے پی ٹی آئی نے اعتماد سازی کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ تو جواب میں ان کاکہنا تھا کہ جو کچھ پی ٹی آئی کرسکتی تھی وہ کیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کریں گے ملک میں عدم استحکام ختم نہیں ہو گا۔اس سوال پر کہ فوج نے 9مئی واقعات پر پی ٹی آئی سے معافی مانگنے کا کہہ رکھا ہے؟

رؤف حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی بار بار کہہ چکی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ان واقعات کی تحقیقات کروائی جائیں یا ایسے شواہد سامنے لائے جائیں جس کی بنیاد پر معافی مانگیں۔رؤف حسن کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے بعض رہنماؤں کا ذاتی حیثیت میں فوج سے رابطہ ہے جو کہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان باضابطہ بات چیت میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک رابطہ 22 اگست کو جلسے سے متعلق وزیرِ اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے ساتھ سامنے آیا تھا جس کے نتیجے میں جلسہ ملتوی کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے فوج سے مذاکرات کے حوالے سے تین رکنی کمیٹی قائم کر رکھی ہے جو فوج سے رابطہ ہونے کی صورت میں مذاکرات آگے بڑھا سکتی ہے۔

رؤف حسن نے کہا کہ فوج کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کے باضابطہ یا غیر رسمی کسی سطح کا رابطے سے متعلق وہ کچھ نہیں کہنا چاہیں گے۔ البتہ ذاتی رابطے بھی بات چیت کو آگے لے جانے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ترجمان پی ٹی آئی کے بقول اگر فوج کے ساتھ باضابطہ بات چیت شروع ہوئی تو کمیٹی کے پاس اختیار ہے کہ وہ اسے آگے بڑھائے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کمیٹی عمران خان سے ملاقات کرکے مزید ہدایات لے گی۔پی ٹی آئی ترجمان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے محمود اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا اختیار دے رکھا ہے اور اگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے مثبت نتائج نکلے تو اپوزیشن اتحاد کے سربراہ اس بات چیت کو اسٹیبلشمنٹ تک بڑھا سکتے ہیں۔

رؤف حسن کہتے ہیں کہ حکومتی اتحاد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث قانون سازی سے عدلیہ کو قابو میں لانا چاہتا ہے کیونکہ حکومت اپنے اقتدار کو صرف اسی صورت برقرار رکھ سکتی ہے کہ عدلیہ اس کے ساتھ کھڑی ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں اپنی خود مختاری ثابت کرنے کی لہر آئی ہوئی ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت عدلیہ کو اپنے زیر اثر کرنے میں کامیاب ہوسکے گی۔وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے جو خط لکھا ہے چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ اس پر جوڈیشل کنونشن بلاتے لیکن انہوں نے اس کیس کو آگے نہیں بڑھایا۔انھوں نے کہا کہ  ریاست کے تین ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں جن میں سے سب سے اہم عدلیہ ہے اور اگر عدلیہ کی آزادی کو حکومت ختم کرے گی تو اس کے نتیجے میں ریاست کا ایک ستون کمزور ہو جائے گا۔رؤف حسن نے واضح کیا کہ  ان کا ملک دشمن عناصر سے کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی ان کے موبائل فون سے ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جو ریاست کی مخالفت کے زمرے میں آتے ہوں۔

ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ آٹھ ستمبر سے عوام کو متحرک کرنے کی ملک گیر تحریک کا آغاز کررہے ہیں جس کے تحت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ریلیاں اور جلسے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی اجازت ملے یا نہ ملے آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں جلسہ ہر حال میں ہوگا۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ایوانوں میں متحرک کردار ادا کرنے کے بعد پی ٹی آئی اب سڑکوں پر تحریک چلائے گی۔انھوں نے کہا کہ عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کا نام لے کر بھی اگر کوئی کہے کہ آٹھ ستمبر کا جلسہ ملتوی کردیا گیا ہے تو اس پر یقین نہ کیا جائے، اس سے قبل پارٹی کی پالیسی تھی کہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر جلسہ نہ کیا جائیں تاکہ دوبارہ 9 مئی جیسی صورتِ حال پیدا نہ ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے جلسے پرامن ترین اجتماع ہوتے ہیں اور آٹھ ستمبر کا جلسہ بھی پرامن ہوگا۔رؤف حسن نے کہا کہ حزب اختلاف اتحاد میں مزید جماعتیں شامل ہونے والی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے مولانا فضل الرحمن سے ان کی پی ٹی آئی وفد کے ہمراہ ہونے والی ملاقات میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے کمیٹیاں بنانے پر اتفاق ہوا ہے جو کہ ایوانوں میں مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات بہت خوش گوار رہی اور دوطرفہ سطح پر معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا۔