منحرف شہری کا رضاکارانہ اعتراف : تحریر وجاہت مسعود


آج کچھ دل کی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے کرہ ٔارض کے اس ٹکڑے پاکستان پر رہتے چھ دہائیاں ہونے کو ہیں۔ میں نے ’رہنے‘ کا لفظ لکھا ہے، ’بسنے‘ کا ذکر نہیں کیا۔ رہنے اور بسنے میں باریک سا فرق ہے۔ ’بستیاں بسنے کو لازم ہے کہ دوچار رہیں، دہر کو کوچہ دلدار سمجھنے والے‘۔ میری مدت العمر میں نقشے پر پاکستان کا رقبہ دس لاکھ تیس ہزار مربع کلومیٹر سے گھٹ کر آٹھ لاکھ بیاسی ہزار مربع کلومیٹر رہ گیا اور آبادی پانچ کروڑ سے بڑھ کر25 کروڑ ہو گئی۔ میں ملک کا وفادار اور قانون کا پابند ہوں۔ تاہم میرا قانون کو مطلوب نہ ہونا نیز ناگہانی موت سے محفوظ رہنا محض اتفاق سمجھنا چاہیے۔ اس ملک میں قانون کی من مانی گرفت سے بچاؤ اور حق زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔ میں نے سن شعور سے اہل پاکستان کے مصائب پر اکثر آنسو بہائے ہیں، بارہا اہل وطن کی خوشی اور خوشحالی کے خواب دیکھے ہیں اور ہمیشہ مایوس ہوا ہوں۔ معاف کیجئے گا، میں اپنی حب الوطنی کا اشتہار نہیں دے رہا۔ ماں اور ملک سے محبت کے اعلان کو میں تمدنی فحاشی سمجھتا ہوں۔ ’وطن سے محبت‘ کے بارے میں میرا رویہ بودیلیئر (Baudelaire) کی نظم ’اجنبی‘ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ “I am ignorant of the latitude where it is situated.” پاکستان سے میرا تعلق محض یہ ہے کہ میں بغیر پوچھے یہاں پیدا کیا گیا، یہاں کا پانی پیا، یہاں کی زبانوں، موسموں، گل بوٹوں اور پرندوں سے اس دنیا کو دیکھنا سیکھا اور مرنے کے بعد یہاں کی مٹی میں مل جاؤں گا۔ میں اس ملک میں رہنے والوں کے رہن سہن، اقدار اور رویوں سے لاتعلق اور بیزار ہی نہیں، باقاعدہ منحرف ہوں۔ بیرون ملک وقت گزارا لیکن ترک وطن کا ارادہ نہیں کیا۔ مجھے ہجوم کا حصہ بننا ناپسند ہے اس لیے میرے جیسا شخص شاید کسی بھی ملک میں خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر ناخوش ہی رہنا ہے تو پیدائش کے حادثے میں ملنے والی شناخت قبول کرتے ہوئے داخلی جلاوطنی سے سمجھوتہ کرنا بہتر ہے۔ اس ملک میں رہنے والوں کے تین درجے ہیں۔ مٹھی بھر امیر طبقہ، تعلیم یافتہ اقلیت اور غریب لوگوں کا انبوہ۔ تینوں گروہوں میں انسانیت کے کچھ اچھے نمونے بھی پائے جاتے ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر یہ افراد معاشرے کی مجموعی سمت متعین نہیں کرتے۔ امیر طبقہ شعوری طور پر بددیانت ہے اور اس کی بیشتر دولت ناجائز ہے۔ تعلیم یافتہ طبقے میں اکثریت محض ڈگری یافتہ ہے،تمدنی شعور اور ذہنی دیانت سے محروم ہے۔ غریب طبقہ اس قدر مفلوج کر دیا گیا ہے کہ اس کی بنیادی انسانیت بھی مجروح ہو چکی۔ پچیس کروڑ انفاس میں ڈھونڈنے نکلو تو بمشکل 2500 انسان ملیں گے۔

اہل پاکستان آج کی دنیا کے سیاسی اصول ضابطوں، معاشی بندوبست اور اداروں کی تعمیر سے نابلد ہیں۔ یہ لوگ تو مملکت اور ری پبلک کا فرق تک نہیں جانتے۔ آزادی سے ان کی مراد من مانی کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ طاقت کو سجدہ کرتے ہیں اور طاقت کے تمنائی ہیں۔ وقفے وقفے سے نئے صاحب اقتدار کی اقتدا میں ان کے نعرے بدل جاتے ہیں اور یہ ایک نئے خواب کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ تاریخ کی ہر کروٹ پر سر گھما کے ادھر اُدھر دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہیں کھڑے ہیں جہاں دس سال پہلے تھے۔ اس کے بعد بکتے جھکتے، ایک دوسرے پر الزام دھرتے، منہ اٹھا کر پھر اندھیرے کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی چھت مزید خستہ ہو جاتی ہے اور دیواروں میں نئے رخنے نمودار ہو جاتے ہیں۔ اہل پاکستان حس انصاف سے قطعی عاری ہیں۔ حقیقی اور مفروضہ گروہوں میں بٹا یہ ہجوم ایک دوسرے سے نفرت کے راتب پر پلتا ہے۔ یہ دوسروں پر ظلم کو جائز سمجھتے ہیں اور اپنے لیے انصاف مانگتے ہیں۔ ان کے پلے دھیلا نہیں اور ان کی رعونت کی کوئی انتہا نہیں۔ انہیں جدیدیت سے شدید نفرت ہے اور ہر جدید سہولت پر اپنا اجارہ سمجھتے ہیں۔ آج کی دنیا کے میلے میں سوال کا کشکول لیے کھڑے یہ لوگ مسلسل ایک ہی مناجات دہراتے ہیں، ’ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں۔ ان کا سیاسی شعور صدیوں پہلے کہیں رک گیا تھا۔ یہ اختلاف رائے اور دشمنی میں فرق نہیں کر سکتے۔ خود کو کسی اجتماعی بندوبست یا دستور ضابطے کا پابند سمجھنا تو ایک طرف یہ گلی، سڑک، بازار اور چوک کی اخلاقیات بھی نہیں جانتے۔ سیاست ہو یا ذاتی زندگی، ان کی ہر دھڑکن میں کسی معجزے کا انتظار ہے۔ لطف یہ ہے کہ شب و روز کی بساط پر تدبیر کی چال نہیں چلتے، باجو کی گلی ڈھونڈتے ہیں۔ یہ انسانوں میں زبان، عقیدے، رہن سہن، ثقافت اور تاریخی تجربات کا تنوع تسلیم نہیں کرتے۔ اپنے سود و زیاں سے بے خبر ہیں اور دوسروں کو اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ اہل پاکستان کے بارے میں کچھ مشاہدات عرض کرتا ہوں۔ یہ لوگ اپنا قومی تشخص مرتب کرنے کی اہلیت تو ایک طرف، سڑک چوراہے پر ایک دوسرے سے ہم وطن ہونے کے تعلق تک سے بے نیاز ہیں۔ یہ راہ چلتے میں ایک دوسرے سے آنکھ تک نہیں ملاتے۔ ہجوم میں صرف اس سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں جس سے کوئی گروہی عصبیت، پیشہ ورانہ تعلق یا کوئی پرانی آشنائی ہو۔ یہ صرف ذاتی تعلق سے واسطہ رکھتے ہیں، باقی انسانوں سے ہمدردی، اخلاق یا حسن سلوک کے روادار نہیں۔ ان کی نظر میں پاکستانی ہونا کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ان کے ڈاکٹر، اساتذہ، صحافی اور وکیل وغیرہ کے نام بھی ذات پات کے چیتھڑوں میں لپٹے ہیں۔ آبائی تحصیل یا لسانی رشتے کو شہد کا چھتا سمجھ کر اس پر بھنبھناتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک کے گلی کوچوں میں آپ کو کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی میں زندگی کی ترنگ دکھائی نہیں دیتی۔کسی عورت یا مرد کی ہنسی سنائی نہیں دیتی اور کسی بزرگ کے چہرے پر خوش وقتی کا اطمینان دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ناخوش ، بیزار اور پریشان لوگوں کا ایک ہجوم ہے جو اپنے دکھ کا سبب نہیں جانتا اور نہ سمجھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ دوسروں کے دکھ کا چارہ کرنے کی فکر نہیں کرتا اور پارسائی کی سوزش میں مبتلا ہے۔ ایسے لوگوں میں جینا زندگی کرنا نہیں، محض خود اختیار کردہ جلاوطنی کے دن پورے کرنا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ