’’خدا ہی تو ہے۔ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ اور آسمان سے مینہ برسایا۔ پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں اور جہازوں کو تمہارے زیر فرمان کیا۔ تاکہ دریا اور سمندر میں اس کے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا۔‘‘(سورۃ ابراہیم۔ آیت 32۔ مضامین قرآن حکیم۔ مرتّبہ: زاہد ملک)
آج اتوار ہے۔ دوپہر کو اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے، سوالوں کے جوابات دینے کا دن، عصر کے بعد اپنے محلّے والوں کا احوال کرب اور دکھ درد جاننے کے لمحات۔پورے پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی رحمت برس رہی ہے۔ کبھی کبھی شور مچاتے ہیں کہ ہم پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔اب روزانہ ہی ہر شہر ہر گاؤں میں ہر سڑک ہر گلی میں کروڑوں بوندیں ضائع ہورہی ہیں۔ اس قیمتی میٹھے پانی کو محفوظ کرنے کا ہم نے کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔ یہ رحمت جگہ جگہ زحمت بن رہی ہے۔ کون ذمہ دار ہے۔
کتنے کم ظرف تھے رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے
پوچھتی رہتی ہے ڈوبی ہوئی دھرتی ہم سے
آتی نسلیں بھی کسی روز یہی پوچھیں گی
کیوں نہ محفوظ ہوا قیمتی پانی ہم سے
سب سے پہلے تو میں اپنے آپ کو ملامت کررہا ہوں کہ مجھے بھی اگر اس گرانقدر نعمت کا احساس ہوتا تو مئی یا جون میں اس موضوع پر قلم اٹھاتا۔ ہم ان موضوعات میں کھوئے رہتے ہیں جہاں ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے۔ اپنی صلاحیتیں ضائع کرتے ہیں۔ بہت ہی کالی اور موٹی بھینسوں کے سامنے بین بجاتے رہتے ہیں۔ اس بھینس کا دودھ بھی اشرافیہ بالٹیاں بھر بھر لے جاتی ہے۔
ہم اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ اپنی جوانیاں برباد کر رہے ہیں۔ 77سال ہم نے اکارت کر دیئے، اس حقیقت سے انکار کسی کو بھی نہیں ہوگا۔ آج ہمارے اس عظیم وطن کو جہاں ہونا چاہئے تھا۔ وہاں نہیں ہے۔ ہمارا روپیہ پاتال میں جاگرا ہے۔ افراط زر کی شرح کتنی بڑھ گئی ہے۔ انتہائی ضرورت کی چیزیں کتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے دس کروڑ سے زیادہ ہم وطن جاچکے ہیں۔ کوئی کوشش انہیں لکیر سے اوپر لانے کی نہیں ہورہی ہے۔
ہم میٹھے پانی کو ترستے ہیں۔ لیکن جب ہمارا پالن ہار ہم پر مہربان ہوتا ہے۔ آسمانوں سے مینہ برساتا ہے تو ہم یہ رحمت سنبھال نہیں سکتے۔ ہم نے اس بہت ہی میٹھے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ضروری انتظامات نہیں کیے۔ اللہ تعالیٰ نے تو نہروں کو دریاؤں کو انسان کے زیر فرمان کیا ہے۔ مگر ہم تو کفران نعمت کے عادی ہوگئے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے واشنگٹن کی طرف دیکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف والے ملک امریکہ نے تو پانی محفوظ رکھنے کی گنجائش 900دن کی کرلی ہے مگر ہمارا ذخیرہ آب صرف 22 سے 25دن کا ہوتا ہے۔ انڈیا میںپانی کا ذخیرہ 130 دن تک ہے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اللہ تعالیٰ قیمتی میٹھا پانی نازل فرما رہا ہے تاکہ ہماری بنجر زمینیں سیراب ہوں، ہماری ضرورت کا اناج پیدا ہو، درختوں پر پھل لدے ہوں، ہماری پیاس بجھے، پانی تو زندگی ہے، ہم تصور ہی نہیں کر سکتے کسی ایک دن کا بھی پانی کے بغیر۔ ہر بوڑھے کو بچے کو پانی چاہئے۔ ہر ماں کو ہر بہن کو پانی درکار ہے۔ ہم پیسے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ پیسے گھر میں تجوریوں میں لاکرز میں بینکوں میں رکھتے ہیں۔ لیکن یہ قیمتی پانی جس کے بغیر ایک دن بھی نہیں گزر سکتا۔ کس طرح واہگہ سے گوادر تک سڑکوں، نالوں، گٹروں کی نذر ہورہا ہے۔ آسمان سے برستے ان روپوں، ڈالروں، درہموں، یوروں، پونڈوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اس کیلئے گھروں میں بڑی بلڈنگوں میں اسمبلی ایوانوں میں عدالتوں کی عمارتوں میں کہیں بھی اس آسمانی نعمت کا ذخیرہ کرنے کا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔ ہر سال چند مہینے میڈیا چیخ رہا ہوتا ہے کہ فلاں علاقہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس گیا۔ جولائی اگست ستمبر میں میڈیا اسکرینیں میٹھے پانی کو آبادی اور نشو ونما کی بجائے شہروں قصبوں بستیوں کی تباہی اور بربادی کا سبب دکھارہی ہوتی ہیں۔ ہمارا مالک و مختار کہتا ہے کہ جب آپ کسی نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ پھر اس کا غضب بھی نازل ہوتا ہے۔
میں تو اپنے ہر کالم میں یونیورسٹیوں سے التجا کرتا رہتا ہوں کہ وہ قوم کو ہر شعبے میں آئندہ دس پندرہ برس کا روڈ میپ دیں۔ یہ درسگاہوں کا تاریخی روایتی فرض ہے۔ تاریخ اسلام میں بغداد، دمشق، قاہرہ، مراکش، دہلی یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ ابن خلدون کا مقدمہ اس کا گواہ ہے۔ میٹھے پانی کو کیسے بچانا چاہئے۔ آسمانوں سے نازل ہونے والی ایک ایک بوند آبادی کی بنیاد ہے۔ پھلوں، اناج کی پیداوار کی ضمانت ہو، یہ بھی زرعی اور عام یونیورسٹیوں میں مامور قابل قدر اساتذہ اور محترم طلبہ و طالبات کی ذمہ داری ہے۔ ایک تحقیق کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں میٹھے پانی کے ذخائر میں سے ہر سال صرف 36فی صد پانی کسی کام آتا ہے۔ 64فی صد ضائع ہوتا ہے۔ بڑا ڈیم بنانے کیلئے جدو جہد اتنی نہیں ہوئی جتنی روکنے کیلئے ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ دیکھ لیں کہ پنجاب ۔ کے پی کے۔ سندھ، بلوچستان میں پانی پیاسی زمینوں کو سیراب کرنے کی بجائے بستیاں بہا کر لے جا رہا ہے۔ یہ سیلاب ہماری نشوونما کی بجائے ہمیں دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک تحقیق یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ہر سال 30 ملین ایکڑ فٹ پانی ہم ضائع کردیتے ہیں۔ اس میں اشرافیہ اور خلق خدا دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔
حکمرانوں پر تو ہم دن بھر تنقید ،مذمت کے گولے برساتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے گھر بناتے وقت بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ٹینک تعمیر کرتے ہیں۔ تعمیراتی کمپنیاں لاکھوں پلاٹ بیچ رہی ہیں، گھر بنارہی ہیں، کتنے گھروں میں برساتی پانی کو محفوظ کرنے کی گنجائش رکھی جاتی ہے اب تک نہ سہی، آئندہ کی اسکیموں میں تو یہ لازمی کرلیں۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یہ شرط ضروری کردے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے وہاں کئی سال سے بڑی بلڈنگوں یونیورسٹیوں وغیرہ میں لازمی کردیا گیا ہے کہ بارش کے پانی کے ٹینک بنائے جائیں۔ بارش کا پانی وفاق کا موضوع ہے،صوبے کا یا بلدیاتی حکومتوں کا۔ یہ سب کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے مالا مال کرتا ہے۔ اس کا نہ وہ کوئی بل بھیجتا ہے، نہ لائسنس کی مانگ ہے۔ اس کی گنجائش رکھنی چاہئے، زیادہ موثر کردار بلدیاتی حکومتیں ادا کر سکتی ہیں مگر ان سے سارے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔
لیکن یہ سب کچھ تو ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ صرف قیدی 804ہے اور قیدی کا مسئلہ صرف لاہور کا جلسہ، پی ٹی آئی بھی کوئی روڈ میپ نہیں دے رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ