اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم قانون پر چلتے ہیں کمیٹیوں پر نہیں چلتے،کمیٹی سے فیصلہ کروالیں، وزیر اعظم سے کمیٹی بنوالیں، رجسٹرارسپریم کورٹ سے فیصلہ کروالیں۔ فیصلہ قانون کے تابع ہونا ہے وکیل کہہ رہے کہ قانون کو چھوڑدیں باقی چیزیں میں کرلوں گا۔ ہم قانون پر چلیں گے ، آپ کہتے ہیں قانون کو چھوڑدیں، میرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے ، پورے واپڈا نے میرے خلاف بات نہیں کی۔ تقریر کریں گے عدالت سے بات نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاتھا، انہوں نے کہا تھا چھوڑ دیں، کاغذ دکھادیں۔ کاغذ دکھادیں اتنے درخت لگادیئے، انجینئر کی رپورٹ کدھر ہے، سپریم کورٹ میں کھڑے ہیں، یہ توایسے ہورہا ہے جیسے بچوں کاکھیل ہے۔ ہم ایسے کرتے ہیں کہ سارے واپڈا ملازمین کو بلالیتے ہیں سب سے ایک، ایک سوال کرتے ہیں، پراجیکٹ انجینئر کاخط دکھادیں، زبانی جمع خرچ کرنا چھوڑ دیں، کاغذ دکھائیں، ہمارے سوال کاجواب کیوں نہیں دیتے، آپ سے جرح کرنا پڑ رہی ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نظرثانی میں توغلطی کی درستگی ہوتی ہے وفاقی محتسب نے نظرثانی میں بیٹھ کر پورافیصلہ لکھ دیا اس سے توہمیں کچھ اورسمجھ آرہا ہے، نظرثانی میں 5صفحے کا پورا فیصلہ لکھ دیا۔چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روز چوہدری غلام عباس کی جانب سے چیئرمین واپڈا،لاہور اوردیگر کے خلاف 64لاکھ روپے سے زائد کی رقم کی ادائیگی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے چوہدری محمد اشرف گوجر بطور وکیل پیش ہوئے۔وکیل کاکہنا تھا کہ منگلاڈیم میں زمین کاکٹائو روکنے کے لئے کیچمنٹ ایریاز میں درخت لگانے کے حوالہ سے اس کے مئوکل کوکنٹریٹ دیا گیا۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کنٹریکٹ کدھر ہے، متعلقہ پورشن بتادیں، اُس کے تحت کرنا کیا تھا۔ وکیل چوہدری محمد اشرف گوجر کا کہناتھا کہ ایوارڈ کے مطابق 3جگہوں پر 75دن کے اندر شجرکاری کرنا تھی، درخواست گزار 180دن تک درختوں کی دیکھ بھال کاذمہ دارتھا اس کے بعد واپڈا نے معاملات کودیکھنا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کام مکمل کرنے کی رپورٹ کدھر ہے،۔ کام مکمل کرنے پر کوئی کاغذ جاری کریں گے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ اورکسی نے اعتراض نہیں کیا صرف اکائونٹس آفیسر نے اعتراض کیا، 64لاکھ روپے سے زائد رقم ملنا تھی تاہم ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کے بلز کدھر ہیں جو وقتا فوقتا دیتے تھے یا بعد میں دینا تھے، یہ عجیب بات ہے۔ چوہدری محمد اشرف گوجر کاکہنا تھا کہ وفاقی محتسب نے میرے حق میں فیصلہ دیا اس کے بعد صدر مملکت کے پاس اپیل گئی جس کافیصلہ بھی میرے حق میں ہوا تاہم اس کے بعد مدعا علیحان اسلام آباد ہائی کورٹ گئے جنہوں نے میرے خلاف فیصلہ دے دیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اکائونٹس والے کی کاکیا مطالبہ تھا، سول کیس محتسب کے پاس کیسے لائے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بدانتظامی ،معاہدے کی خلاف سے مختلف چیز ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیکچوئل تعین کے لئے سول کورٹ جائیں گے، یا کہیں یہ میراسیاسی مخالف ہے بل ادانہ کریں، میکنزم کے مطابق بلز کدھر ہیں، صرف یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کام کردیا کنٹریکٹ میکنزم کدھر ہے، کیسے بل دینا ہے، کیسے ریز کرنا ہے، کیسے عملی طورپر تصدیق کرنی ہے، عبوری ادائیگی کاثبوت کدھر ہے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے کہاتھا، انہوں نے کہا تھا چھوڑ دیں، کاغذ دکھادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کاغذ دکھادیں اتنے درخت لگادیئے، پراجیکٹ انجینئر کی رپورٹ کدھر ہے، سپریم کورٹ میں کھڑے ہیں، یہ توایسے ہورہا ہے جیسے بچوں کاکھیل ہے۔
وکیل کاکہناتھا کہ 9مئی2017کا بل ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پراجیکٹ انجینئر کولکھا گیا خط کدھر ہے وہ دکھائیے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ کوئی اتھارٹی کاافسر نہیں جو میرے خلاف ہو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ایسے کرتے ہیں کہ سارے واپڈا ملازمین کو بلالیتے ہیں سب سے ایک، ایک سوال کرتے ہیں، پراجیکٹ انجینئر کاخط دکھادیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو انجینئر کوشکایت کی وہ خط دکھائیں، زبانی جمع خرچ کرنا چھوڑ دیں، کاغذ دکھائیں، ہمارے سوال کاجواب کیوں نہیں دیتے، آپ سے جرح کرنا پڑ رہی ہے۔ چوہدری محمد اشرف گوجر کاکہنا تھا کہ سب ڈویژنل آفیسر سے چیف انجینئرتک تمام اتھارٹیز میرے حق میں لکھ رہی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس نے کمیٹی بنائی ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑھنے لگ گئے جس کاکوئی سر ہے نہ پیر۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بل دیں گے اورانجینئر نے 28دن میں تصدیق کرنی ہے اگرایسا نہیں کرتے توسول عدالت میں چیلنج کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم قانون پر چلتے ہیں کمیٹیوں پر نہیں چلتے، کمیٹی سے کروالیں، وزیر اعظم سے کمیٹی بنوالیں، رجسٹرارسپریم کورٹ سے کروالیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 28دن میں چیف انجینئر کوشکایت کریں گے کہ پیسے دیں ، انجینئر جواب دے گا یاادائیگی کرے گا اوراگرادائیگی نہیںکرے گاتوپھر آپ اُس کوچیلنج کریں گے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ادائیگی نہیں ہوئی، نوٹس کہاں ہے۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ وکیل صاحب ہماری بات سن کیوں نہیں رہے، سب غیر متعلقہ باتیں کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصلہ قانون کے تابع ہونا ہے وکیل کہہ رہے کہ قانون کو چھوڑدیں باقی چیزیں میں کرلوں گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انجینئر بتائے گا کہ کیوں ادائیگی نہیں کررہا، قانون کے مطابق چلیں، کنٹریکٹ کوچھو بھی نہیں رہے، محتسب کے پاس چلا گیا، صدر کے پاس چلا گیا۔ وکیل کی جانب سے وقت دینے کی استدعا پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہاں وقت دینے کااصول نہیں ہے، اگر ادائیگی سے انکار ہوتا ہے توآذپ ثالثی میں جاسکتے ہیں یاسول کورٹ میں دعویٰ دائر کرسکتے ہیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے آپ کاراستہ بند نہیں کیا، یہ درخواست اگرخارج ہوئی توآپ کے خلاف مس یوز ہوگا اس لئے بہتر ہے اس درخواست کوواپس لے لیں اورمتعلقہ فورم سے رجوع کریں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ مزید دستاویزات کے لئے وقت دے دیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے بتاچکے ہیں کہ ہم کیس کی سماعت ملتوی نہیں کریں گے، ہائی کورٹ کے فیصلہ میں کیا خامی ہے بتادیں، کنٹریکٹ میں متعلقہ اتھارٹی انجینئر ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم قانون پر چلیں گے ، آپ کہتے ہیں قانون کو چھوڑدیں، میرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے ، پورے واپڈا نے میرے خلاف بات نہیں کی۔ چوہدری محمد اشرف گوجر کاکہنا تھا کہ 180دن تک کسی بھی ڈیفالٹ کی صورت میں درخواست گزارذمہ دار تھا ، کہیں بھی میرے کسی نقص کوٹھیک کرنے کانہیں کہا گیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ نظرثانی میں توغلطی کی درستگی ہوتی ہے وفاقی محتسب نے نظرثانی میں بیٹھ کر پورافیصلہ لکھ دیا اس سے توہمیں کچھ اورسمجھ آرہا ہے، نظرثانی میں 5صفحے کا پورا فیصلہ لکھ دیا۔
وکیل کاکہناتھا کہ 180دن تک میری ذمہ داری تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تقریر کریں گے عدالت سے بات نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وفاقی محتسب کا نظرثانی کااختیار پڑھیں، خارج کرنے کاپہلا فیصلہ کب ہوا تھا۔ چوہدری محمد اشرف گوجرکاکہنا تھا کہ کیس کو واپس بھجوادیں۔چیف جسٹس نے فیصلہ لکھوانا شروع کیا تواس دوران وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی کہ وہ ہائی کورٹ فیصلے کی روشنی میں متعلقہ سول عدالت سے رجوع کرنے کے لئے درخواست لینا چاہتے ہیں۔عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔