شہباز شریف کی کارکردگی، ایک جائزہ : تحریر مزمل سہروردی


آج کل ملک میں معاشی صورتحال کے حوالے سے عجیب بحث جاری ہے۔ ایک وقت تھا ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا بیانیہ بنایا جا رہا تھا۔ ہمیں روز بتایا جاتا تھا کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا۔ چند دن میں ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ پاکستان کو سری لنکا بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ ڈیفالٹ کا ایک ماحول بنایا گیا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ملک میں معاشی بحران نہیں تھا۔ لیکن کچھ سیاسی قوتیں اس معاشی بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کی بجائے اس کو بڑھانے اور ملک میں مایوسی پھیلانے کا کام کرتی رہیں۔ لیکن تب بھی شہباز شریف نے دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک طرف ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اور دوسری طرف مایوسی پھیلانے والے کو بھی شکست دی۔ شاید یہ اسی کا پھل ہے کہ وہ آج دوبارہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ورنہ پاکستان میں مسلسل دوسری دفعہ وزیر اعظم بننے کی کوئی روایت موجود نہیں۔ یہاں وزارت عظمی سے گھر جانے اور جیل جانے کی روایت ہے۔ دوبارہ وزیر اعظم بننے کا کارنامہ شہباز شریف نے ہی کیا ہے۔

آج بھی ایک طرف جب ملک کو معاشی استحکام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو وہی عناصر جو پہلے ڈیفالٹ کا بیانیہ بنا رہے تھے ۔آج معاشی تباہی کا بیانیہ بنا رہے ہیں۔ آج بھی شہباز شریف کو دو محاذوں پر چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ ملک کو معاشی استحکام دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ جواپنی جگہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف ان عناصر سے بھی جنگ جاری ہے جو ملک میں معاشی تباہی کا ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ قوم کو معاشی استحکام کی جنگ لڑنے کے لیے ہمت دینے کی بجائے آج پھر مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ روزانہ ایسی فیک نیوز پھیلائی جاتی ہیں جس سے عام پاکستانی کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشی بحران بہت سنگین ہو گیا ہے اور پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو رہا ہے۔ اب ڈیفالٹ کا بیانیہ نہیں بنایا جاتا۔بلکہ معاشی تباہی کا بیانیہ بنایاجا رہا ہے۔

ایک ماحول بنایاجا رہا ہے کہ بڑی کاروباری کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر جا رہی ہیں۔ ملک پر معاشی طور پر بین الاقوامی اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اب اس حو الے سے چند حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ جس سے فیک نیوز اور حقیقت کا فرق سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ آپ سب نے ایک خبر بہت پڑھی ہوگی۔ سو شل میڈیا پر اس خبر کا بہت چرچا ہے کہ پاکستان میں آٹھ سو سے زائد پٹرول پمپ رکھنے والی بین الا قوامی فرانس کی کمپنی ٹوٹل نے پاکستان سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ پاکستان کی معاشی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اب اس خبر کی حقیقت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹوٹل نے اپنے کل بزنس کے پچاس فیصد حصص سوئٹزر لینڈ کی کپنی گنوور کو بیچ دیے ہیں۔ یہ پچاس فیصد حصص 26.5ملین ڈالر میں فروخت کیے گئے ہیں۔ پہلے صرف فرانس کی ٹوٹل پاکستان میں تھی اب سوئٹزر لینڈ کی کمپنی بھی شامل ہو گئی ہے۔ یہ بین الاقوامی اشتراک ہے۔ جو پاکستان کے معاشی استحکام کی نشانی ہے کہ بین الا قوامی کمپنیاں پاکستان میں کاروبار خریدنے اور کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اب پاکستان میں اس خبر کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ معاشی ماہرین کے نزدیک یہ ایک مثبت خبر ہے۔ ہمیں یہ خبر معاشی تباہی کے طور پر بتائی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ اشتراک معاشی استحکام کی نشانی ہے۔

ایک اور خبر بہت پھیلائی جا رہی ہے کہ شیل نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شیل جا رہی ہے۔ اب خبر کی حقیقت کیا ہے۔ شیل نے اپنے کاروبار کا 77.42حصص سعودی کمپنی وافیل انرجی کو بیچ دیے ہیں۔ اب شیل اور سعودی کمپنی ملکر کام کریں گے۔ یہ بھی دو بڑی کمپنیوں کا اشتراک ہے۔

اب نئی خبر ہے کہ موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی ہے۔ ورنہ پہلے تو ریٹنگ کم کرنے کی خبر آتی تھی۔ موڈیز نے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ۔ ڈیفالٹ رسک میں کمی لیکویڈٹی میں بہتری کی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں ایک درجہ بہتری کی ہے۔

ایسا پاکستان میں پہلے کب ہوا ہے۔ کیا یہ معاشی استحکام کا عالمی اعتراف نہیں ہے۔ ابھی آئی ایم ایف کا پیکیج نہیں آیا۔ لیکن معاشی استحکام نظر آرہا ہے۔ ابھی عالمی سرمایہ کاری پہنچی نہیں لیکن معاشی استحکام نظر آرہا ہے۔ روپے کی قدر مستحکم ہے۔ وہ دن گئے جب روز روپے کی قدر گر جاتی تھی۔ ڈالر کی اونچی اڑان قابو میں نہیں تھی۔ آئی ایم ایف لیٹ ہوگیا ۔ ڈالر چڑھ گیا۔ لیکن حکومت نے یہ سب ختم کر دیا ہے، روپے کی قدر اب ایک سال سے ز ائد سے مستحکم نظر آرہی ہے۔

ملک میں مہنگائی ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اب مہنگائی کے بھی دو حصہ ہو گئے ہیں۔ ایک مہنگائی ہے دوسری بجلی کی قیمت ہے۔ میں سمجھتا ہوں مہنگائی جس میں بجلی کے علاوہ ضروریات زندگی کی چیزیں شامل ہیں۔اس میں کمی ہوئی ہے۔

آپ دیکھیں ملک میں شرح سود کا مہنگائی اور افراط زر سے گہرا تعلق ہے۔ جب مہنگائی عروج پر تھی تو ملک میں شرح سود بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ اب جب مسلسل شرح سود میں کمی آرہی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مہنگائی میں کمی آرہی ہے۔ لیکن شاید دوست یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بجلی کا مسئلہ یقینا اس حکومت کی گلے کی ہڈی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک بجلی کی قیمت کا کوئی حل نہیں نکلتا، یہ شور کم نہیں ہوگا۔ لیکن مہنگی بجلی کے علاوہ موجودہ حکومت کی معاشی محاذ پر جو کامیابیاں ہیں، ان کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس لیے میرے جو دوست منفی پراپیگنڈا کے اثر میں یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے، انھیں اس اثر سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ جب حکومت کو ابھی چھ ماہ نہیں ہوئے ہیں۔ معاشی محاذ پر کافی استحکام آیا ہے اور یہ شہباز شریف کی بڑی کامیابی ہے۔ جسے ملک کے اسٹیک ہولڈرز دیکھ رہے ہیں۔ شہباز شریف کی معاشی کامیابیاں بتا رہی ہیں کہ اگر انھیں مکمل موقع مل گیا تو وہ پاکستان کا معاشی منظر نامہ بدل دیں گے۔ وہ معاشی کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے۔ اس لیے ہمیں منفی پراپیگنڈا کا زیادہ شکار نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بات درست ہے کہ ہمیں سیاست بہت پسند ہے۔ اور شہباز شریف اس وقت سیاست نہیں کر رہے۔ ان کی توجہ معاشی محاذ پر ہے۔ ان کی گفتگو بھی معاشی بحالی کے اجلاسوں کے حوالے سے ہی سامنے آتی ہے۔ وہ زیادہ بات بھی معاشی استحکام اور معیشت پر ہی کرتے ہیں۔ اس لیے لوگ سیاست کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ وہ کیا غلط کر رہے ہیں۔

ان کے لیے یہ وقت سیاست کرنے کا ہے یا پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ سمجھتے ہیں سیاست کے لیے ابھی وقت ہے۔ اگر معاشی استحکام آگیا تو سیاست بہت ہوگی۔ لیکن اگر معاشی بحالی نہ ہوئی تو سیاست کی گنجائش بھی نہیں بچے گی۔ شاید اسی لیے ہمیں آج کل شہباز شریف کا سیاسی رنگ کم نظر آتا ہے۔ لیکن شاید وہ جو کام کر رہے ہیں۔ انھیں وہی کرنا چاہیے۔ اسی میں ملک کا مفاد ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس