احسن اقبال کے 4 سال کون واپس کرے گا؟ : تحریر تنویر قیصر شاہد


سب سے پہلے تو راقم وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال سے ذاتی حیثیت میں افسوس کرنا چاہتا ہے۔ اگلے روز احسن اقبال صاحب کا قیمتی موبائل فون کسی ستم ظریف چور نے دن دیہاڑے چوری کر لیا۔ موصوف وزیر شیخوپورہ میں نون لیگی ایم پی اے (رانا افضال حسین) کی نمازِ جنازہ میں شریک تھے کہ کسی دیدہ دلیر نے چپکے سے اور نہایت مہارت سے ان کی جیب سے موبائل فون چرا لیا ۔ کئی قومی اخبارات نے یہ خبر شایع کی ہے ۔

زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں بھی چور وارداتیں کرنے ،ہاتھ دکھانے اور اپنی دیہاڑی لگانے سے باز نہیں آتے ۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر نون لیگ کے سیکرٹری جنرل، وفاقی وزیر اور قومی سطح کے سیاستدان کا موبائل فون چوری کیا جا سکتا ہے تو ہما شما کس باغ کی مولی ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ موقع خوشی کا ہو یا غم کا،چور دیہاڑی لگانے سے باز نہیں آتے ۔ مجھے اپنی فیملی کے ساتھ بیتی ایک واردات یاد آ گئی ہے: میرے ایک نہایت قریبی عزیز فوجی افسر وزیر ستان میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے شہید ہو گئے ۔ ہم اسلام آباد میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کرنے گئے تھے کہ پیچھے سے چور ہماری کئی دیگیں کھانے سمیت چرا کر لے گئے ۔

جنابِ احسن اقبال خوش بختیوں اور بد قسمتیوں کے درمیان جھولنے والے سیاستدان ہیں ۔ وطنِ عزیز میں ہمارے تقریبا سبھی سیاستدانوں کی ایسی ہی قسمت ہے۔ احسن اقبال صاحب اِس لحاظ سے تو قسمت کے دھنی ثابت ہوئے ہیں کہ وہ نون لیگ کے پلیٹ فارم سے کئی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں اور کئی بار وفاقی وزیر بھی ۔ وہ سیاست کے گرم سرد چشیدہ ہیں ۔ ہر موسم اور ہر آزمائش میں اپنی پارٹی سے جڑے رہے۔ جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف سے پکی کمٹمنٹ کے ساتھ ۔ یہ کمٹمنٹ ان کے لیے کئی ادباروں اور آزمائشوں کا باعث بھی بنی ہے ۔ ایک مذہبی انتہا پسند نے تو ان پر گولی کے ساتھ حملہ بھی کیا ۔

نون لیگ کے ساتھ گہری وابستگی اور کمٹمنٹ کے سبب انہیں جیل ، عدالتوں اور کورٹ کچہریوں کی ہوا بھی کھانا پڑی ۔ وہ مگر ٹوٹے نہ دلگیر ہوئے اور نہ ہی پارٹی و اپنی اعلی قیادت سے دستکش ہوئے ۔ بانی پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور میں تو ان پر سختیوں، داروگیر اور آزمائشوں کے پہاڑ توڑ ڈالے گئے ۔ ان کے خلاف کئی( بے بنیاد) مقدمات کی پٹاری کھول دی گئی۔ ان کے خلاف نیب کو بھی متحرک کر دیا گیا ۔

سب سے بڑا مقدمہ ان کے خلاف یہ گھڑا گیا کہ انہوں نے اپنے حلقے ( ضلع نارووال)میں استوار کیے جانے والے عالمی معیار کے اسپورٹس کمپلیکس میںکئی بے ضابطگیاں کی ہیں ۔یہی الزام اور تہمت انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گئی۔ مقدمہ تخلیق کرنے والوں کا اصل مقصد مگر یہ تھا کہ احسن اقبال صاحب کو نون لیگ اور نواز شریف سے جدا کیا جا سکے ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا اور انہیں رلایا نہ جا سکا تو عمران خان حکومت کا دباو انہیں پسِ دیوارِ زنداں لے گیا۔

انہیں دسمبر2019کے یخ بستہ ایام میں جیل کے ننگے فرش پر سونے پر مجبور کیا گیا ۔ وہ اِس حال میں جبری گرفتار کیے گئے تھے کہ ان کے بازو کی سرجری بھی تازہ تازہ تھی ۔ گرفتار کرانے والوں میں مگر حِس کہاں تھی ؟ وہ دو ماہ سے زائد عرصہ قید میں رہے ، لیکن اِس دوران اشکبار ہوئے نہ واویلا مچایا ۔ اور اب اگست2024 کے تیسرے ہفتے خبر آئی ہے کہ جنابِ احسن اقبال کو نارووال سٹی اسپورٹس کمپلیکس کے نام نہاد اسکینڈل سے مکمل طور پر بری کر دیا گیا ہے ۔چار سال بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے احسن اقبال کے خلاف ریفرنس بند کر دیا ہے ۔

جنابِ احسن اقبال کے مکمل طور پر بری ہونے پر ان کے دشمنوں کے ہاں تو صفِ ماتم بچھی ہوگی مگر احسن اقبال صاحب ، ان کی فیملی ، نون لیگ اور ان کے جملہ دوست، بہی خواہ خوش اور مطمئن ہیں اور اپنے رب کے شکر گزار بھی ۔ سوال مگر یہ ہے کہ جن لوگوں، اداروں اور قوتوں نے احسن اقبال صاحب کے قیمتی چار سال ضایع کر دیے ، یہ قیمتی چار سال انہیں کون واپس کرے گا؟ نون لیگ کے سیکرٹری جنرل کو مسلسل چار سال جس طرح کورٹ کچہریوں میں خجل خوار کیا گیا۔

میڈیا میں ان کی سیاست اور شخصیت پر سوالات کے جو داغ لگانے کی ناتمام کوششیں کی گئیں ، سماجی اعتبار سے انہیں جو گزند پہنچایا گیا ، یہ سب نقصانات کون پورا کرے گا؟ ان پر لگائے گئے زخموں کا اندمال کون، کیسے کرے گا؟ آج اِس حوالے سے جو سوال جنابِ احسن اقبال کررہے ہیں ، ایسے ہی سوالات ہر وہ نون لیگی رہنما پوچھ رہا ہے جسے بانی پی ٹی آئی کے دور میں حوالہ زنداں کیا گیا ۔ اندر سے نکلا مگر کچھ بھی نہیں۔ ایسا ہی سوال جنابِ آصف علی زرداری بھی خاموش زبان سے پوچھتے رہتے ہیں جنہیں متعدد اور متنوع الزامات کے تحت برسہا برس تک مختلف جیلوں رکھا گیا ۔ بالآخر اندر سے مگر نکلا کچھ بھی نہیں ۔

متنوع اور مختلف قوتیں سیاستدانوں کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے سیاستدانوں کے خلاف ایسے قابلِ مذمت ہتھکنڈے کب تک بروئے کار لاتی رہیں گی ؟ کب تک عوام کی منازل کو کھوٹا کیا جاتا رہے گا؟ حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ احسن اقبال صاحب نے2009 میں جب نارووال میں اسپورٹس کمپلیکس پراجیکٹ کا اجرا کیا، اس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور نون لیگ اپوزیشن میں تھی ۔اس وقت جناب احسن اقبال فقط نون لیگی ایم این اے تھے ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم ، جناب یوسف رضا گیلانی، سے یہ اسپورٹس کمپلیکس منظور کروایا تھا ۔

یہ اسپورٹس کمپلیکس صرف ضلع نارووال اور ڈویژن ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے پنجاب اور پورے پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی نعمت اور سہولت قرار دی گئی تھی کہ یہ اسپورٹس کمپلیکس اپنی وسعت، جدت، ماڈرن سہولتوں اور عالمی معیار کا حامل بننے جارہا تھا ۔ یہاں عالمی معیار کی ہر کھیل کا انعقاد کروایا جا سکتا تھا ۔ پاکستان کے ہر کھلاڑی کو یہاں ٹریننگ کی جدید سہولتیں فراہم کی جانی تھیں ۔اِسے پنجاب کے ضلع نارووال میں نارووال مرید کے روڈ سے متصل 46ایکڑ رقبے پر تعمیر ہونا تھا ۔ اور اِس کی تعمیرو تشکیل پر تقریبا3ارب روپے خرچ ہونا تھا۔

نارووال سٹی اسپورٹس کمپلیکس مکمل ہو چکا تھا ۔ مگر اِس سے پوری طرح استفادہ نہ کیا جا سکا کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی تھی ۔ احسن اقبال صاحب جیلوں ، عدالتوں اور کچہریوں میں دھکے کھانے لگے تو نارووال اسپورٹس کمپلیکس میں جھاڑ جھنکاڑ اور تباہی نے ڈیرے جمالیے ۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت احسن اقبال کو اِسی بنیاد پر جیلوں میں ڈالنے کی بجائے اِس اسپورٹس کمپلیکس سے استفادہ کرتی تو ابھی حال ہی میں پیرس میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں پاکستان ایک گولڈ میڈل نہیں ، کئی گولڈ میڈل جیت کر آتا ۔ مقدمات سے بری ہونے اور دوبارہ وزیر بننے کے بعد جناب احسن اقبال نئے سرے سے نارووال سٹی اسپورٹس کمپلیکس کی تزئین و آرائش پر توجہ دے رہے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ اِس بار ان کی راہ میں کوئی روڑے نہیں اٹکا سکے گا۔ اور عنقریب ہی عالمی معیار کی کھیلیں اور کھلاڑی نارووال کے عالمی معیار کے اسپورٹس کمپلیکس میں مدعو کیے جا سکیں گے ۔ یہ احسن اقبال کے لیے ایک بڑا اعزاز ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس