سول جج گوجر خان، سید فیضانِ رسول کو اسکالرشپ پر ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کالعدم قرار

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ اور لاہورہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کو عدالتی افسران کے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک جانے کے معاملے پرواضح پالسیی بنانے کاحکم دے دیا۔عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے انتظامی جج اور تین رکنی کمیٹی کی جانب سے سول جج گوجر خان سید فیضانِ رسول کو اسکالرشپ پر ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کالعدم قراردے دیئے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ درخواست گزارتمام شرائط پوری کرکے اسکالرشپ پر ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جاسکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کو درخواست گزار کی رہائش، سفر اورداخلہ فیس کے حوالہ سے کوئی اضافی رقم نہیں دینا پڑے گی۔لاہور ہائی کورٹ عدالتی افسران کے ساتھ انصاف پر مبنی انداز میں معاملہ کرے۔

رجسٹرارلاہورہائی کورٹ درخواست گزار کے بیرون ملک تعلیم کے لئے جانے کامعاملہ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ اورلاہورہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کے سامنے رکھیں۔ہوسکتاہے درخواست گزاررواں سال نہ جاسکے توآئندہ سال یااس کے بعد جب بھی اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تواس کے حوالہ سے فیصلہ کیا جائے۔ اگر عدالتی افسران کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی توپھر مقامی یونیورسٹی سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسی بہانے پالیسی بن جائے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کوعدالتی افسران کے باہر پڑھنے جانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ ہم ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، آئین میں ہائی کورٹ کو دیئے گئے اختیارات پڑھیں۔ کیااس طریقہ سے ہائی کورٹ کوچلایاجانا چاہیئے۔جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس کی جانب سے 22دسمبر کو اسلام آباد میں راستوں کی بندش کابھی تذکرہ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے  سکالرشپ پر ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت نہ دینے کے معاملہ پر سول جج گوجر خان سید فیضانِ رسول کی جانب سے رجسٹرارکے توسط سے لاہور ہائی کورٹ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیرسٹر محمد ممتاز علی، ڈپٹی رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ شاہد لطیف اور درخواست گزار سید فیضانِ رسول عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو پڑھنے نہیں دینے جارہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتا ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزاراپنے خرچے پر اور سکالرشپ پر ایل ایل ایم کرنے بیرون ملک جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صوبہ سے 8سے زیادہ ججز تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک چلے گئے ہیں جودرخواست گزارکواجازت نہیں دی۔ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کاکہنا تھا کہ 8سے زیادہ نہیں گئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پھر خلاف ورزی تونہیں ہوئی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وجہ بتادیں کہ 8لوگ چلے گئے، ہمیں جوڈیشنل افسران کی ضرورت ہے یا لاہور ہائی کورٹ پیسے نہیں دے سکتی، ایک وجہ بھی نہیں بتائی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیااس طریقہ سے ہائی کورٹ کوچلایاجانا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی بنیادی ذمہ داری توصوبہ ہے اس کے بعد سپریم کورٹ آتی ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر جوڈیشل افسران کے ساتھ ناانصافی ہو گی تو پھر کیا ہو گا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بھیج دوتاہم کوئی وجہ تودے دو، تین ججز پر مشتمل کمیٹی نے کوئی وجہ نہیں بتائی، کیا آئین اور قانون کے مطابق یہ انصاف ہے۔ درخواست گزار کاکہناتھاکہ جواسکالرشپ اسے مل رہی تھی وہ پاکستانی روپے میں 2کروڑ بنتی ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ اسکالرشپ ملی نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو باہر پڑھنے جانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اتنی عجیب وغریب بات ہے ، کیوں پابندی لگائی، میری مرضی یا ہم افسران کو نہیں چھوڑسکتے ، اگر مقامی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے توپھر وہ ملکی یاغیر ملکی کسی بھی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے وہ کام تونہیں کرسکے گا۔ بیرسٹر محمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ نے پابندی لگائی اس کے بعد کسی افسرکو بیرون اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جانے کی اجازت نہیں ملی، پابندی کے حوالہ سے 20اگست2022کو سرکولرجاری ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیایہ اختیار چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کے پاس ہونا چاہیئے۔ بیرسٹر محمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ یہ انتظامی کمیٹی کے پاس اختیارہونا چاہیئے ، پالیسی فیصلہ کرنا انتظامی کمیٹی کااختیار ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ توانتظامی کمیٹی کے پاس جانا چاہیئے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ انتظامی کمیٹی 7ججز پر مشتمل ہے جس میں چیف جسٹس ، سینئر ترین جج اور پانچ ججز شامل ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس لمبا چلے گاہم بریک کے بعد واپس آتے ہیں۔وفقہ کے بعد سماعت کاآغاز ہواتوچیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی اورچیز ملی۔بیرسٹر محمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ ہر چیف جسٹس نیانوٹیفکیشن جاری کرتاہے، یہ معاملہ چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، آئین میں ہائی کورٹ کو دیئے گئے اختیارات پڑھیں۔ اس کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 202اور203پڑھ کرسنائے ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رولز کیسے بنے یہ دکھائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس معاملہ میں حکومت کی پالیسی کیا ہے سرکاری ملازمین بھی تو پڑھنے باہر جاتے ہیں، اِن کی کوئی پالیسی ہے، صوبے کی ہے یاوفاقی حکومت کی ہے۔ اس کے بعد درخواست گزار نے کابینہ ڈویژن کی پالیسی پڑھ کرسنائی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو تنخواہ ملے گی کہ نہیں۔ اس پر درخواست گزارکاکہنا تھا کہ پہلی مرتبہ جانا ہے اس لئے تنخواہ ملے گی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ ایک عرصہ تک پوری تنخواہ ملتی ہے اس کے بعد آدھی ملتی ہے۔

چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی بنیادی حقوق کے آرٹیکل کاحوالہ دیں ، کون سے بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے رولز کب بنے۔بیرسٹر محمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ آخری مرتبہ 2010میں اپ ڈیٹ ہوئے تھے ، یہ نہیں پتا بنے کب تھے۔چیف جسٹس کاڈپٹی رجسٹرار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، بعد میں کہیں گے مجھے سنا ہی نہیں۔ بیرسٹر محمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد اورلندن سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے،لنکنز ان سے بار ایٹ لاء کی ڈگری کی حاصل کی۔ درخواست گزار کی جانب سے اُردومیں بات کرنے پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انگلستان میں انگریزی بولی جاتی ہے وہاں اُردونہیں چلے گی، ہم انگریزی میں بات کروانا چاہتے ہیں جہاں آپ جانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے 10سال عدالت چلائی ہے، پہلے وکیل دلائل دیتا ہے توجج مطمئن ہوجاتا ہے تاہم جب وہ بار بار ایک ہی بات کرتا ہے توجج اپنا ذہن تبدیل کرلیتا ہے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں آپ گزشتہ سماعت پر حاضر نہیں ہوئے تھے،کیا ہوا تھا، کوئی دھرناوغیرہ تھا۔ اس پر درخواست گزار کاکہنا تھاکہ راستے بند ہونے کی وجہ سے عدالت نہیں پہنچ سکاتھا۔جبکہ بیرسٹرمحمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ دھرنا تھااور راستے بند ہونے کی وجہ سے میں بھی اُس دن نہیں پہنچ سکاتھا۔

بیرسٹرمحمد ممتاز علی کاکہنا تھا کہ جتنے بھی جوڈیشل افسران بیرون ملک پڑھنے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی وہاں نہیں رکا اورسب واپس آئے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ ڈپٹی رجسٹرار نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل کی حمایت کی۔متعلقہ اتھارٹی سے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جانے کے لئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت لینا ہوگی،اگرا جازت نہیں دے گی توپھر وہ وجوہات بتائے گی۔ ہم نے درخواست گزاراورمدعاعلیہ کو سنا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کاجائزہ لیا، ہائی کورٹ کے سرکولرز، پالیسی اورممیورینڈمز کاجائزہ لیا اورآئین کے آرٹیکل 202اور203کو بھی پڑھا۔ چیف جسٹس کاحکم میں کہنا تھا کہ ہم اس بات سے آگا ہیں کہ ہرہائی کورٹ آزاد ہے اور وہ ماتحت عدلیہ کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ درخواست گزار لاہور ہائی کورٹ کاماتحت افسر ہے اور اس حوالہ سے آئینی اسکیم واضح ہے۔ لاہور ہائی کورٹ عدالتی افسران کے ساتھ انصاف پر مبنی انداز میں معاملہ کرے۔ درخواست گزارکی جانب سے اسکالرشپ پر بیرون ملک ماسٹرز آف لائ(ایل ایل ایم)کرنے جانے کی اجازت طلب کی گئی تاہم ان کی درخواست مسترد کردی گئی اورکوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی توپھر مقامی یونیورسٹی سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ درخواست گزار نے فیصلہ کو چیلنج کیا، ہائی کورٹ فیصلہ میں بھی انتظامی جج کے فیصلہ کو برقراررکھنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، فیصلے میں لکھا گیا کہ متعدد وجوہات کی وجہ سے اجازت نہیں دی جاسکتی تاہم ایک بھی وجہ نہیں لکھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نہ ہی انتظامی جج اور نہ ہی ہائی کورٹ کا فیصلہ برقراررکھا جاسکتا ہے۔ عدالت نے دونوں فیصلے کالعدم قراردے دیئے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزارتمام شرائط پوری کرکے اسکالرشپ پربیرون ملک ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کرنے جاسکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کو درخواست گزار کو ئی رہائش، سفر اورداخلہ فیس کے حوالہ سے کوئی اضافی رقم نہیں دینا پڑے گی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئینی طور پر ہائی کورٹ رولز بناسکتی ہے اور تمام ماتحت جوڈیشنل افسران سپروائز اورکنٹرول کرسکتی ہے۔ عدالتی افسران کے بیرون ملک قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جانے کے حوالہ سے کوئی واضح پالیسی نہیں۔

کبھی انتظامی کمیٹی معاملہ کافیصلہ کرتی ہے اور کبھی چیف جسٹس اوردیگر متعلقہ جج فیصلہ کرتا ہے۔ سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی تاہم اگر کوئی عدالتی افسراپنی قابلیت کی بنیاد پر بیرون ملک تعلیم کے لئے اسکالرشپ حاصل کرتا ہے تو پنجاب حکومت کے سروس میں درکار پورے ہونے یاریٹائرمنٹ سے قبل درکار مدت کی بنیاد پرجانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ رجسٹرارلاہورہائی کورٹ درخواست گزار کے بیرون ملک تعلیم کے لئے جانے کامعاملہ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ اورلاہورہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کے سامنے رکھیں۔ عدالتی افسران کے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جانے کے حوالہ سے واضح پالیسی مرتب کی جائے۔ہوسکتاہے درخواست گزاررواں سال نہ جاسکے توآئندہ سال یااس کے بعد جب بھی اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تواس کے حوالہ سے فیصلہ کیا جائے۔ درخواست گزارنے بتایا کہ گزشتہ برس بھی دویونیورسٹیوں نے اسکالرشپ آفر کی تھی تاہم اجازت نہ مل سکی اوررواں سال بھی دویونیورسٹیوں نے آفر کی تھی تاہم ان کی تاریخ گزر گئی ہے اورانہوں نے اب انکارکردیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ نے جلد سماعت کی درخواست کیوں نہیں دی، کوئی وکیل کرلیتے، اپنی قابل اہلیہ کو بھیج دیتے وہ دلائل دے دیتیں۔ عدالت نے درخواست گزار کی ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف درخواست منظور کر لی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ اس بہانے پالیسی بن جائے گی۔