(جماعتِ اسلامی حلقہ لاہو رکے زیراہتمام اِچھرہ لاہور میں 25 اگست 2024ء کو 84 ویں یومِ تاسیس کی مناسبت سے اجلاسِ عام منعقد کیا گیا۔ لیاقت بلوچ (نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان) نے تاسیسِِ جماعت کے حوالہ سے خطاب کیا جسے افادہِ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔ تقریر کے نوٹس اور ریکارڈنگ سے نقل کیا گیا ہے اور تقریر کی زبان کو تحریر میں بدل دیا گیا ہے)۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم o
الحمدُ للہِ رب العالمین، والصلواۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہٖ و اصحابہٖ اجمعینo
وَاَن اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیہo صدق اللہ العظیم۔
قائدینِ محترم، خواتینِ اسلام، برادرانِ اسلام، عزیز نوجوانو اور بیٹیوں!
میں جماعتِ اسلامی حلقہ لاہور کے امیر ضیاء الدین انصاری صاحب اور پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جماعتِ اسلامی کی تاسیس کے بعد 83 سال مکمل ہونے، یعنی 26 اگست 1941ء تا 26 اگست 2024ء، اِس طرح 84 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر بہت اہم اور باوقار، سنجیدہ اجتماع منعقد کیا ہے۔ یومِ تاسیس کا پروگرام منفرد، مثالی، اتحادِ اُمت کی داعی جماعت کا یومِ تاسیس ہے۔ پروگرام میں مختلف موضوعات پر قائدین خطاب کریں گے، میں خصوصاً جماعتی تاسیس، سیاسی، آئینی، پارلیمانی اور عوامی جدوجہد کے حوالہ سے چند گذارشات اختصاراً و اشارتاً پیش کروں گا۔ یہِ دِن غور وفکر، تشکر، تجدیدِ عہد اور اقامت، دین کی جدوجہد کے لیے عزمِ نو کا دن ہے۔ ہر پہلو سے تحریکِ اسلامی کی پیش رفت پر جائزہ کا بھی موقع ہے۔
اقامتِ دین جماعتِ اسلامی کا نصب العین ہے۔ یہ ہی اِس کی جدوجہد کا محور و مرکز اور یہ ہی اِس کی منزل ہے۔ نصب العین جو 1941ء میں مقرر ہوا، وہی نصب العین آج بھی ہے۔ ہمیشہ اِسی مقصد و جہد کو قائم رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ جماعتِ اسلامی کا وجود صرف اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد پر قائم رہ سکتا ہے۔ الحمدُ للہ! تمام تر حالات، مشکلات، تہذیبی، سیاسی مد و جزر کے باوجود اقامتِ دین کی جدوجہد پورے تَیقن کے ساتھ جاری ہے اور اِن شاء اللہ جاری رہے گی۔ یقیناً یہ ایک طویل سفر ہے۔ 83 سال کی مدت میں بہت سے لوگ نفسِ مطمئنہ اللہ کی طرف لوٹ گئے، دوسری نسل بھی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ گئی، تیسری اور چوتھی نسل تحریک میں آچکی ہے۔ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ 83 سال کی اقامتِ دین کی جدوجہد کو جانا جائے، ہر پہلو سے مقاصدِ تحریک ذہن نشین رہیں۔ اس لیے میں مرد و خواتین اور نوجوانوں کو تجویز کروں گا کہ وقتاً فوقتاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معرکۃ الاراء تحریروں، خصوصاً “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش”، جو 1932، 1938 اور تیسرے مرحلہ میں 41-1939ء میں لکھی گئی، ضرور زیر مطالعہ رکھیں۔ اقامتِ دین کی جدوجہد اللہ کہ راہ میں جہاد کے حوالہ سے مولاناؒ کی جوانی میں لکھی گئی کتاب “الجہاد فی الاسلام”، “مسئلہ قومیت”، “تحریکِ اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل” بھی ضرور پڑھتے رہا کریں۔ یہ بھی تجویز کروں گا کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد 26 اگست کو یومِ تاسیس کے موقع پر “جماعتِ اسلامی کے 29 سال (26 اگست 1941ء تا 26 اگست 1970ء)” کے موضوع پر بانی جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تقریر/کتابچہ بھی ضرور پڑھیں۔ نظریاتی پختگی اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جہدِ مسلسل اِن شاء اللہ بڑی تقویت کا باعث ہوگا۔
تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے حوالہ سے جماعتِ اسلامی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر بے بنیاد، من گھڑت اور غیرحقیقت پسندانہ الزام عائد کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو اقامتِ دین اور اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کے فلسفہ سے چِڑ رکھتا ہے، وہ جو چاہے جماعتِ اسلامی پر الزام لگا دے، فکری بددیانتی کی بنیاد پر دوسروں کے فتوے، نعرے، مؤقف جماعتِ اسلامی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے جماعتِ اسلامی کی کسی قرارداد، کسی ریزولوشن، کسی اجتماع کی کاروائی، قیادت کے بیانات سے صحیح سند کے ساتھ تحریکِ پاکستان کی مخالفت ثابت نہیں کرسکتا، نہ ہی کرسکے گا۔
جماعتِ اسلامی کا روزِ اول سے مطالبہ ہے کہ اسلامی حکومت قائم کرو، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے مطلوب سیرت و کردار پیدا کرو، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مسلسل اپنی تحریروں اور رسالہ “ترجمان القرآن” کے مضامین سے اِس امر کا ابلاغ کیا لیکن جب انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہ صدا بصحرا بن رہی ہے تو پورے برصغیر سے اِس فکر، پیغام کے لیے مثبت رائے رکھنے والوں کو لاہور میں جمع کیا اور 26 اگست 1941ء کو جماعتِ اسلامی کی تاسیس ہوئی اور مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بانی امیر منتخب ہوئے۔ جماعتِ اسلامی کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی پوری ذمہ داری سے سامنے تھے کہ
- برصغیر تقسیم نہ ہوا تو مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کِیا جائے؟
- مسلمانوں کو آزادی اور آزاد ریاست مل جائے تو اُسے مثالی اسلامی مملکت بنانے اور اُسے کافرانہ تہذیب و ثقافت سے کیسے بچایا جائے؟ اور اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا یہ ہی وژن آج ملک و مِلت کا سہارا ہے۔ انڈیا، بنگلہ دیش،، مقبوضہ و آزاد کشمیر میں اللہ کے دین کی خدمت، انسانوں کی اصلاح کے لیے باوقار، نظریاتی، دینی اور منظم پلیٹ فارم موجود ہے اور حالات کی تنگی ترشی، ظلم و جبر کے تسلط، پھانسیوں اور جانوں کے نذرانے دے کر بھی اللہ کے دین کی خدمت کا مشن حکمت، تدبر اور ایمان و یقین کی طاقت کے ساتھ جاری ہے۔
جماعتِ اسلامی کے 83 سال، خصوصاً 1947ء قیامِ پاکستان کے بعد، آزاد مملکت میں 77 سال جماعت ِاسلامی کی عظیم جدوجہد کے چند پہلو عرض کررہا ہوں کہ جماعتِ اسلامی نے اقامتِ دین، تطہیرِ افکار، تعمیرِ کردار، قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحادِ اُمت اور ملک میں سیاسی، آئینی، پارلیمانی جدوجہد کی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے طویل غور و فکر اور اُنہیں جو خداداد دُور رَس صلاحیتیں حاصل تھیں اُسی بناء پر صاف شفاف وژن، قرآن و سنت سے رچی بسی فکر، لائحہ عمل متعین کیا۔ جماعتِ اسلامی کے تمام حدودِ کار اور سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ دستور نافذ کیا، جماعتِ اسلامی میں شورائیت، جمہوریت اِس طرح سے نافذ کی کہ بِلا خوف و تردید کہا جاسکتا ہے کہ جماعتِ اسلامی میں جتنی مستحکم جمہوری اقدار ہیں، شاید ہی دُنیا میں کسی اور جماعت میں ہوں۔ اس لیے کہ جماعتِ اسلامی کی دعوت پارٹی حزبی یا محض جماعتی یا اپنے امیر کی طرف بلانے کی نہیں بلکہ خالصتاً قرآن و سنت کی دعوت اور پیغام ہے۔ اسی لیے سیاسی محاذ پر جدوجہد کے لیے جماعتِ اسلامی نے اپنی دعوت کے نکات کو متعین کردیا ہے۔ جماعتِ اسلامی کی دعوت کیا ہے؟
- اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی، محمدﷺ کی اتباع و اطاعت اور پیروی اختیار کرو؛
- دو رنگی اور منافقت چھوڑ دو اور اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیاں جمع نہ کرو؛
- اللہ سے پِھرے ہوئے لوگوں کو دُنیا کی رہنمائی اور فرماں روائی کے منصب سے ہٹاکر زمامِ کار مومنین و صالحین کے ہاتھ میں دو تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھیک اللہ کی بندگی کے راستے پر چل سکے۔
یہ دعوت سب کے لیے، تمام انسانوں کے لیے، بندگانِ خدا کے لیے ہے، اس لیے جو بھی اِس دعوت کو حق سمجھے وہ اِس میں ہمارا ساتھ دے اور جو روڑے اٹکائے تو وہ اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لے۔
جماعتِ اسلامی نے اپنے دستور میں اپنا طریقہ کار طے کرلیا اور اِسی پر کاربند ہے۔
دستور جماعتِ اسلامی پاکستان، دفعہ 5 (جماعتِ اسلامی کا مستقل طریقہ یہ ہوگا کہ):
1۔ وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسولﷺ کی کیا ہدایت ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اِس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اِس کی گنجائش ہے۔
2۔ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
3۔ جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی، یعنی تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں، سیرتوں کی اصلاح کی جائے گی اور رائے عامہ کو اِن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے گا جو جماعت کے پیشِ نظر ہے۔
4۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور اعلانیہ کرے گی۔
الحمدُ للہ! جماعتِ اسلامی نے دستور کے متعین طریقہ کار کے مطابق اپنی جہدِ مسلسل کو جاری رکھا ہے۔ نظامِ ریاست کی اصلاح، قرآن و سنت کی بالادستی، فرقہ واریت کے مقابل میں وحدت، اتحاد و یکجہتی، اصلاحِ معاشرہ، مخلوقِ کی خدمت کے کام کو مسلسل کیا ہے اور اِسی سمت میں یہ کام جاری رہے گا اِس مدت میں سیاسی انقلابی پالیسی اور جدوجہد طے کرنے کے مراحل میں اختلافی نقطہ نظر بھی اُبھرا، بہت اہم اکابرین کی علیحدگی بھی ہوئی لیکن وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعتِ اسلامی کے اجتماعی شورائی نظام کے ذریعے جو فیصلے کیے وہی وقت اور حالات نے درست ثابت کیے۔ اقامتِ دین کے لیے سیاسی، آئینی، جمہوری جدوجہد، دعوت و تبلیغ کے ذریعے عامۃ الناس سے وسیع رابطہ، حالات، وقت اور اسلام دشمن استعماری قوتوں کے مقابلہ کے لیے ہر فرقہ و مسلک کے لوگوں کو بڑے مقصد کے لیے جمع کرنے کو ہی پائیدار راستہ قرار دیا جو دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے اپنے اپنے ممالک میں مختلف تجربات کے بعد جماعت اسلامی کے وژن، طریقہ کار کی تائید و تحسین کی ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اقامتِ دین کے لیے جہاں جماعتِ اسلامی جیسی منفرد تنظیم قائم کی وہیں اِس کے استحکام کے لیے بھی حکمت، دانش و تدبر کے ساتھ مضبوط بنیادیں فراہم کردیں اور تنظیم کی مضبوطی کے لیے یہ پائیدار اصول بھی طے کرتے ہوئے 26 اگست 1970ء یومِ تاسیس کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
“میں نے اپنے طویل تجربات و مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کی تحریکوں کے ناکام ہونے یا ابتداء میں کامیاب ہوکر آخرکار ناکام ہوجانے کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تنظیم کا بھی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جماعتِ اسلامی کا نظم نہایت سخت اور مضبوط ہونا چاہیے، خواہ کوئی رہے یا جائے، عزیز سے عزیز آدمی بھی چلا جائے تو کوئی پروا نہ کی جائے لیکن تنظیم میں ڈھیل نہ ہونے دی جائے۔ اس لیے کہ ایک غیرمنظم جماعت کبھی ایسی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی جو تنظیم کے ساتھ اُٹھنے والی نہ ہوں۔ ایک قلیل التعداد جماعت اگر منظم ہو اور حکمت کے ساتھ کام کرے تو وہ پوری ایک قوم کو سنبھال سکتی ہے، لیکن لاکھوں انسانوں کی بِھیڑ آپ جمع کرلیں اور اُس کے اندر تنظیم نہ ہو تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتی۔”
اب میں چند گذارشات جماعتِ اسلامی کی آئینی، سیاسی، پارلیمانی جدوجہد کے حوالے سے بھی پیش کروں گا۔
- محنت، امانت، دیانت، جمہوری رویے، ردعمل نہیں حکمت و برداشت، انتہا پسندی کی بجائے میانہ روی اور اپنے پیغام اور مؤقف کو مشاورت اور دلیل کے ساتھ پیش کیا۔ سیاسی محاذ پر مہذب، شائستہ اور باہمی احترام کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
- پاکستان میں مطلوبہ اسلامی نظام کی مؤثر اور نتیجہ خیز مہم چلائی، جس کی بنیاد پر پہلی دستور ساز اسمبلی کو قراردادِ مقاصد منظور کرنی پڑی، جو آج بھی دستورِ پاکستان کا حصہ اور ملک و مِلت کے لیے بہت اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
- جماعتِ اسلامی نے پاکستان کی سامراجی بلاک یا استعماری فورم دولتِ مشترکہ سے وابستگی کی مخالفت کی اور اسلامی بلاک کی تجویز پیش کی۔ ہمیشہ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام و اسلوب کی مخالفت کی اور اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
- مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مسلسل کوششوں سے تمام مسالک کے 34 اکابرین جمع ہوئے اور 22 نکات پر مشتمل اسلامی ریاست کا خاکہ پیش کیا۔ یہ پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے اکابر علماء کا متفقہ مؤقف ہے۔
- جماعتِ اسلامی نے 1952ء میں مطالبہ اسلامی دستور مہم کے تحت 9 نکات پیش کیے، جس پر حکومت نے اپنے سیکولر دستوری سفارشات واپس لے لیں۔
- 1953ء میں تحفظِ ختمِ نبوتؐ قومی تحریک میں جماعتِ اسلامی نے فعال کردار ادا کیا۔ مولانا مودودیؒ اور دیگر قائدین گرفتار ہوئے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو فوجی عدالت سے سزائے موت سُنائی گئی۔ مولانا نے رحم کی اپیل سے انکار کردیا۔
- 1956ء میں دستور کی تیاری کے لیے مولانا مودودیؒ نے حکومت کو رہنما نکات پیش کیے جو دستوری خاکہ تھا۔
- 1956ء کے نئے دستور کی جماعتِِ اسلامی نے چند اختلافی نکات کے ساتھ حمایت کی۔
- 1958ء میں جماعتِ اسلامی نے ایوب خان کے مارشل لاء اور 1956ء کے دستور کے خاتمہ کی مخالفت کی، جس کی پاداش میں جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد ہوئی۔ جماعتِ اسلامی کے دفاتر بند کردیے گئے، بیت المال منجمد کردیا گیا اور ریکارڈ قبضہ میں لے لیا گیا۔
- 1970ء میں یومِ شوکتِ اسلام منایا گیا، جو پورے ملک میں بہت کامیاب رہا، جس سے انتخابات کے لیے اسلامی قوت کا زبردست مظاہرہ ہوا۔
- 1972ء میں جماعتِ اسلامی کے جری، بہادر، خدامست اور عوامی خدمت گار رہنما، ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو ڈیرہ غازی خان میں اُن کے کلینک میں شہید کردیا گیا۔ فسطائیت کے خلاف زوردار آواز کو خاموش کردیا گیا۔
- 1973ء کے دستور کی تشکیل میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیل محمد کی قیادت میں تاریخی محنت اور کردار ادا کیا گیا۔ پروفیسر غفور احمدؒ، محمود اعظم فاروقیؒ، صاحبزادہ صفی اللہؒ نے قومی اسمبلی میں بھرپور کردار ادا کیا۔
- 1979ء میں قومی اتحاد کی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اور نظامِ مصطفٰیﷺ تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا۔
- 1988ء میں قاضی حسین احمدؒ کی قیادت میں 18 مارچ سے 16 اپریل تک ملک بھر میں کاروانِ دعوت و محبت چلا اور پورے ملک میں کروڑوں لوگوں تک جماعت کی دعوت اور پیغام پہنچایا گیا۔
- 1973ء کے دستور کے تحفظ، بحالی کے لیے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء اور جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بھرپور، مؤثر آواز بلند کی۔
- قومی اسمبلی، سینیٹ میں اسلامی قوانین اور عوام دشمن قانون سازی کی مخالفت میں بھرپور کردار ادا کیا۔
- فوجی عدالتوں، آئینی اداروں کے سربراہوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع، ذاتی مفادات کے تحفظ اور بدنیتی پر مبنی قانون سازی کے خلاف دلیل اور احتجاج کی طاقت سے آواز اٹھائی جاتی رہی، جو پارلیمانی اور قانون سازی کی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔
- اتحاد و یگانگت کی آبیاری، اُخوت و بھائی چارے کا فروغ اور فرقہ واریت کا خاتمہ اُمت کے عروج کی ضمانت ہے۔ لیکن اسلامی نظام کا راستہ روکنے اور اسلامی دائروں میں مسالک کی بنیاد پر فرقہ واریت پھیلانے، انتہا پسندی اور عدم برداشت پھیلانا لادین قوتوں اور سِول-ملٹری اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کا سوچا سمجھا منصوبہ عمل میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 90ء کی دہائی میں فرقہ واریت، قتل و غارت گری، شیعہ،سُنی اختلافات بڑی شدت اختیار کرگئے تو 24 مارچ 1995ء کو دینی جماعتوں کے قائدین کو اکٹھا کرنے میں قاضی حسین احمدؒ نے کلیدی کردار ادا کیا اور فرقہ واریت، قتل و غارت گری روکنے کےلیے ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قیام کا تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ ہر طبقہ فکر میں جماعتِ اسلامی کی وحدتِ اُمت کے لیے کردار کی تحسین کی جاتی ہے۔
غرض یہ کہ اسمبلیوں، پارلیمنٹ میں نمائندگی کے لحاظ سے تو کم تھے لیکن قابلِ بھروسہ اور جمہوری مزاحمت کا استعارہ رہے۔
جماعتِ اسلامی کا سیاسی محاذ پر یہ مستقل مؤقف ہے کہ سیاسی استحکام ہی ملکی استحکام کا ضامن ہے۔ آئین اور قرآن و سنت کی بالادستی، قانون کا نفاذ اور آزاد عدلیہ، صاف شفاف انتخابات اور عوامی مینڈیٹ کا تقدس ہی اقتصادی اور سیاسی استحکام کا پائیدار مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ سیاست، حکومت، سِول ملٹری اسٹیبلشمنٹ آئینی حدود کی پابند بن جائیں۔ قومی سیاسی قیادت ڈائیلاگ اور قومی ترجیحات پر اتفاق کے ذریعے سیاسی بحرانوں کا سیاسی حل تلاش کرلیں گے، وگرنہ باہم دست و گریباں ہونے، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے سے تیسری غیرآئینی طاقت ہی فائدہ اُٹھائے گی۔
اتحادی سیاست میں بھی جماعتِ اسلامی کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لیکن وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ اب تجربات نے اِس نتیجے کو عیاں کردیا ہے کہ اتحادی سیاست بےثمر اور مفادات کا کھیل بنادیا گیا ہے اور اتحاد کے تقدس کو پامال کردیا گیا ہے۔ حال ہی میں اتحادی حکومتیں، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اِسی بربادی سے دوچار ہیں اور باہم بےاعتمادی اور مفادات کے ٹکراؤ کا شکار ہیں۔ اس لیے 2018ء کے انتخابات کے بعد سے جماعتِ اسلامی کی سیاسی انتخابی حکمتِ عملی واضح، دوٹوک ہے کہ اتحادی سیاست نہیں اپنے صاف ستھرے پیغام، کردار اور خدمات کی بنیاد پر اپنے پرچم اور انتخابی نشان ترازو کے ساتھ سیاسی انتخابی محاذ پر سرگرم رہیں گے۔ الحمدُللہ! کارکنان اِس جدوجہد پر یکسُو ہیں۔
مذاکرات سیاست میں اختلافات کے خاتمہ اور اصلاحِ احوال کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ جب بھی سیاست میں ڈائیلاگ کے دروازے بند ہوتے ہیں اِس کا فائدہ طالع آزما اُٹھاتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کی سیاسی، پارلیمانی تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ سیاست میں مذاکرات کو اہمیت دی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مسئلہ کشمیر پر حکمرانوں سے دو مرتبہ ملاقات اور مذاکرات کیے۔ ایوب خان فوجی آمر لیکن مذاکرات اور ملاقات کے مرحلہ پر انکار نہ کیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم قومی اتحاد کی زبردست تحریک کے دوران مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے آئے، مولانا نے خیرمقدم کیا۔ میاں طفیل محمد مرحوم کی قیادت میں یو ڈی ایف، اپوزیشن اتحاد، قومی اتحاد مذاکرات، یحییٰ خان فوجی آمر سے مذاکرات اور مشرقی پاکستان کی صورتِ حال پر سیاسی حکومت سے مذاکرات کیے۔ جنرل پرویز مشرف دور میں دستور کی بحالی کے لیے مذاکرات کے بعد معاہدہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے معاہدہ شکنی کی، پھر تاریخ نے دیکھا کہ وردی بھی اُتری اور فوجی آمر رُسوا بھی ہوگیا۔ وردی بھی اور چمڑی بھی اُتری (لاعلاج بیماری لگ گئی)۔ بنگلہ دیش میں آمر شیخ حسینہ واجد نے جب ناجائز مقدمات کی بھرمار کی، سہ فریقی معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی تو میاں نوازشر یف وزیراعظم تھے، لیکن اختلاف کے باوجود قومی مسئلہ پر ملاقات کی، مذاکرات کیے۔
حال ہی میں عوامی مطالبات، عوامی ریلیف کے لیے اسلام آباد/راولپنڈی یں دھرنا ہوا۔ تاریخی اور کامیاب دھرنا ہوا۔ حکومت نے مذاکرات کیے، تحریری معاہدہ ہوا۔ اب یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فریب، دھوکہ کی بجائے عوامی ریلیف کے معاہدہ پر عمل کرے اور سیاست میں سیاسی مذاکرات کا تقدس بحال کیا جائے۔
84 ویں یومِ تاسیس جماعتِ اسلامی کے موقع پر کارکنان پُرعزم ہوں، تجدیدِ عہد کریں۔ اِن شاء اللہ! بابرکت اسلامی انقلاب ملک و مِلت کا مقدر بنے گا، اقامتِ دین کی جدوجہد کامیاب ہوگی۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا دو قومی نظریہ، اقامتِ دین کی فکر پر حسین اتفاق تھا۔ اِسی نظریاتی، فکری تعلق کی بناء پر علامہ اقبالؒ کے اشعار سے بات ختم کرتا ہوں۔
ؔ حقیقتِ ازلی ہے رقابتِ اقوام
نگاہِ پیرِ فلک میں نہ میں عزیز، نہ تو
خودی میں ڈوب، زمانے سے نااُمید نہ ہو
کہ اِس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دِل میں لَاشَرِیکَ لَہُ