جماعت اسلامی کی خوبصورت روایات۔۔۔تحریر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی


مجھے 1982میں مولانا مودودی رح کی بیگم (جنھیں ہمارے گھر میں اماں جان محترمہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا،) کا ہمارے گھر تشریف لانا یاد ہے ۔آغاجان انکی گاڑی کا دروازہ کھول کر با ادب کھڑے تھے ،وہ اپنے کچھ مسائل ڈسکس کرنے تشریف لائ تھیں اور آغاجان پردے کے پیچھے سے بغور انکی بات سن کر انھیں تسلی دے رہے تھے کہ ہم آپکے حکم کے مطابق سب کچھ کریں گے -پورا دن گزار کر بہت دعاوں کے ساتھ رخصت ہویئں تھیں -اپنی وفات سے کچھ دن قبل ہم اسماء آپا کے گھر انکی عیادت کے لیئے گئے -تو وہ بولتی نہ تھیں مگر جب آپا نے انھیں امی کا بتایا کہ قاضی صاحب کی بیگم آپ سے ملنے آئ ہیں اور ان کے روئ کے گالوں جیسا نرم ہاتھ جب امی نے تھاما تو انکی آنکھ سے ایک آنسو انکے گال پر ڈھلکتا چلا گیا اور اسماء آپا نے کہا کہ انھوں نے آپ کو پہچان لیا ہے –
میاں طفیل محمد رح کا گھرتو ہمارے ہمسائے میں تھا -آغاجان انھیں میاں صاحب محترم کا طفیل قبیلہ کہتے تھے -انتہائ شرافت اور اخلاق کا مرقع قبیلہ اور اس میں زیادہ وصف میاں صاحب کی اہلیہ محترمہ ہماری جنت مکین خالہ جان کا تھا -زمین پر ایسے چلتی تھیں کہ کسی چیونٹی کو بھی تکلیف نہ ہو -اجتماع میں ایک کونے میں چپ کر کے بیٹھ جاتی تھیں -خودنمائ اور شھرت سے کوسوں دور کسی اور ہی جہان کی باسی معلوم ہوتی تھیں -ہمیں انکی شفقت ہی شفقت یاد ہے -انتہائ نفیس اور صاف ستھرا ذوق انکے گھر ،انکی اولاد انکے اخلاق سب کچھ سے عیاں ہوتا تھا اور ہم نے انکی بہت محبتیں سمیٹیں -آخری وقت وہ اور امی اپنے ہمسائے میں ایک بیٹی کی شادی میں اسے رخصت کر کے آئیں -مغرب کی اذان ہو رہی تھی امی اپنے گھر آکر نماز پڑھنے کھڑی ہوئیں اور خالہ جان اپنے گھر اور دوران نماز سجدے میں اپنے رب سے ملاقات کے لیئے چل پڑیں -خوش بخت خالہ جان کی خوبصورت زندگی اور قابل رشک رخصتی -خالہ جان کے بعد اپنی امی کو اپنے جماعت کے کارکنان سے اتنی گہری محبت کرتے دیکھا کہ ہم جماعت میں قاضی حسین احمد کے ساتھ ساتھ بیگم قاضی کی محبتوں کا ثمر بھی سمیٹ رہے ہیں -تنظیم اور سمع وطاعت ہم نے اپنی امی سے سیکھی -جماعت پر تن من دھن وار دینا اور گرم وسرد حالات میں جماعت کی ڈھال بنے رہنا انھوں نے ہی سکھایا -جمعئیت علمائے ہند کے اکابر علماء کے گھروں میں پرورش پانے کے باوجود مولانا مودودی رح کے لٹریچر کی ایسی اسیر اور تفھیم القرآن کی دلدادہ امی جماعت اسلامی کے تیسرے امیر کی بیوی نہیں بلکہ کارکن کے طور پر ابھی تک قابل احترام سمجھی جاتی ہیں –
امی کے بعد امیر محترم سید منور حسن صاحب کی اہلیہ عائشہ باجی تو ہماری ہیرو اور ہماری آئیڈیل خاتون لیڈر ہیں جنھوں نے ہم زیرو کارکنان کو ہر طرح کا اعتماد بخشا اور چھوٹی عمر میں بڑے بڑے خواب ہماری آنکھوں میں سجا دئیے-اس وقت لگتا تھا سارا زمانہ ہمارے پاوں کی ٹھوکر پر ہے اور عائشہ باجی کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں تھا -منورحسن صاحب رح کا میرے سسرمولانا عبد العزیزرح کا ساتھ بھی بہت عقیدت واحترام کا تعلق تھا -اس وجہ سے بھی وہ تعلق بڑھتا چلا گیا -عائشہ باجی نےقومی اسمبلی میں پانچ سال کا عرصہ ایک شفیق ماں کی طرح میری حفاظت کرتے ہوئے میری راہنمائ اور تربئیت کی –
اسکے بعد سراج لالہ کی اہلیہ ماہتاب بھابھی نے واقعی ایک بہن اور امی کی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا -دس سال انھوں نےامیر جماعت کے گھر کو جماعت اسلامی کی خواتین کا میکہ بنائے رکھا -امی کو وہ گرم روٹی بنا کر بھجواتی رہیں ‘ہم انکے گھر بلا تکلف اپنی سہولت اور اپنی ضرورت کے مطابق کسی بھی وقت چلے جاتے اور اپنی بات سنا آتے-ماہتاب بھابھی کا دروازہ ہمیشہ انکے دل کی طرح کھلا ہی پایا –
آج جب ان خوبصورت یادوں کے تسلسل میں امیر جماعت محترم حافظ نعیم الرحمن بھائ کی اہلیہ ڈاکٹر شمائلہ مجھ سے اور امی سے ملنے آئیں -وہ منصورہ میں آتے ساتھ ہی ہمیں یہ احساس دلانے آئیں کہ جماعت انھی روایات کی
حامل ہے جس میں عورت کو ایک خاندان کا تحفظ حاصل ہے -اس نے امی کو دیکھ کر کہا کہ میں نے رات کو خواب میں اپنی فوت شدہ امی کو دیکھا تھا مجھے لگا کہ میں اپنی امی سے مل رہی ہوں -مجھے ایسے گلے سے لپٹ کر کہا کہ باجی مجھے آپ اپنی بڑی بہن ہی لگتی ہیں -مجھے لگا کہ ان شاءاللہ ہم اپنی جماعت اسلامی کو پاکستانی خواتین کے لیئے تحفظ سے بھرپور اور رشتوں سے معمور جماعت بنائیں گے جس میں ہر عورت کے لیئے اسکی دلچسپی کے مطابق کام ،اسکے لیئے محفوظ ماحول اور عزت واحترام ہوگا –
آج ڈاکٹر شمائیلہ سے ملاقات نے یادوں کی یہ بارات سجا دی اور ان شاءاللہ ہم اپنے قائدین حافظ نعیم الرحمن اور ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں جماعت اسلامی کو خواتین کے لیئے ایک مہربان جماعت کے طور پر پاکستان کی خواتین کے سامنے پیش کریں گے اور اپنے امیر محترم کی رہنمائی میں خواتین کو اس “حق دو عوام کو” تحریک کا حصہ بنائیں گے اور خواتین کے حقوق بھی لے کر دکھائیں گے ان شااللہ
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاررواں ہمارا