کیا تاجروں کی ہڑتال جائز ہے؟ : تحریر مزمل سہروردی


جماعت اسلامی نے ملک میں مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے خلاف ہڑتال کی کال دی ہے۔ اس سے پہلے جماعت ا سلامی نے اس حوالے سے راولپنڈی میں ایک دھرنا بھی دیا تھا ۔ جہاں حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے ہوا۔ جہاں تک میری اطلاعات ہیں اس معاہدہ پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی موجود ہے۔ اور جماعت اسلامی کے معاہدہ کی مدت بھی ابھی موجود ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے نیم مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے مسلسل سیاسی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ ان کا عوام کی نبض پر ہاتھ ہے۔ لہذا وہ عوامی مسائل پر احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ حکومت گرانے کے لیے نہیں لیکن بجلی اور مہنگائی پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس لیے ان کے احتجاج کو منفی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ ان کی سیاست کو مثبت سیاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

جماعت اسلامی نے ہڑتال کی کال دی ہے اور تاجروں نے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی اس کال کی حمایت کی ہے۔ مجھے تاجروں کی جانب سے جماعت اسلامی کی کال کی حمایت پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ یقینا مہنگی بجلی اور مہنگائی تاجروں کا بھی مسئلہ ہے۔ وہ بھی پاکستان میں رہتے ہیں مہنگے بل ان کو بھی پریشان کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے ان کا جینا بھی دوبھر کر دیا ہے۔ اس لیے اگر تاجر مہنگائی اور مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج کر تے ہیں تو یہ کوئی بری بات نہیں۔ جیسے جماعت اسلامی کے احتجاج کو مثبت نظر سے دیکھا جاتا ہے ایسے ہی تاجروں کے اس احتجاج کو بھی مثبت نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔

لیکن صورتحال ایسی نہیں ہے۔ حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ایف بی آر نے ایک تاجر دوست اسکیم بھی شروع کی ہوئی ہے۔ یہ اسکیم بھی ویسے کامیاب نہیں ہے جیسے توقع کی جا رہی تھی۔ اس کی کامیابی کے لیے ایک تجار رہنما کو اس کا انچار ج بھی بنایا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ اس طرح کامیاب نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے قیام پاکستان سے اب تک تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔

سب ناکام ہوئی ہیں۔ تاجروں سے پیار سے ٹیکس لینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ بھی ناکام ہوئی ہے اور سختی کے جواب میں تاجر ہڑتال کر دیتے ہیں اور حکومتیں ہڑتال سے ڈر کر بھاگ جاتی ہیں۔ کیا آپ سب کو یاد ہے کہ جب جنرل مشرف طاقت کا محور تھے۔ انھوں نے بھی تاجروں سے ٹیکس لینے کی کوشش کی لیکن تاجروں نے ہڑتالیں شروع کر دیں۔ جس کے جواب میں وہ ٹیکس لینے سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس وقت ان کے دوستوں نے ان کو بتایا گیا تھا کہ یہ سارے تاجر مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ہڑتال کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں تب بھی تاجرن لیگ کی محبت میںنہیں بلکہ ٹیکس سے بچنے کے لیے ہڑتال کر رہے تھے۔

پاکستان کی تمام حکومتیں بشمول بانی تحریک انصاف کی حکومت تاجروں سے ٹیکس لینے میں ناکام ہوئی ہے۔ ہم ان سے ٹیکس ریٹرن لینے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ حکومت کو اپنی آمدن بتانے کے لیے تیار نہیں۔ آپ ان کے پاس بیٹھ جائیں تو یہ روئیں گے کہ حالات بہت برے ہیں۔ کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن جب ان کے اثاثے دیکھیں تو بڑھتے جائیں گے۔ نوے فیصد تاجر نان فائلر ہیں۔ بڑی بڑی دکانیں مارکیٹیں اور پلازے ہیں لیکن نان فائلر۔ اور یہ ریٹرن دینے کے لیے تیار نہیں۔

جب میرا ٹیکس آڈٹ ہو تا ہے تو یہ تاجرکیوں اپنا ٹیکس آڈٹ کروانے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا حساب کیوں نہیں ہونا چاہیے۔ بہر حال میری حکومت سے گزارش ہے کہ ووٹ بینک کی فکر چھوڑیں اور تاجروں سے ٹیکس لینے میں نرمی نہ کریں۔ انھوں نے کبھی نرمی سے ٹیکس نہیں دیا ہے۔ یہ اب بھی نرمی سے ٹیکس نہیں دیں گیقانون کو اپنا راستہ خود بنانا پڑے گا۔ یہ ہڑتال کرتے ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائیہڑتال کے ہتھیار کو ناکام بنانا ہوگا۔ اس حوالے سے نئی قانون سازی کریں۔ ہڑتال جرم بنائیں۔ کم از کم ٹیکس چوری کے خلاف ہڑتال جرم ہونا چاہیے۔ اسی میں پاکستان کا مفاد ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس