بلوچستان کا مستقبل؟ : تحریر حامد میر


بلوچستان کے علاقے موسی خیل میں 26 اگست کو بے گناہ اور غیر مسلح سویلینز کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار دی گئیں۔ حملہ آوروں نے اکثر مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا۔ اکثر مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہروں سے تھا۔ کچھ وسطی پنجاب اور دو بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے یہ دونوں پشتون تھے۔

موسی خیل بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں تونسہ شریف، مغرب میں لورا لائی، شمال میں ژوب اور جنوب میں بارکھان ہے۔ اس علاقے میں پشتونوں کی اکثریت ہے جو موسی خیل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور میانوالی تک پھیلے ہوئے ہیں۔

موسی خیل والوں کا کاروبار اور رشتہ داریاں پنجاب سے لیکر خیبر پختونخوا تک پھیلی ہوئی ہیں لہذا اس علاقے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کا آنا جانا معمول ہے۔ 26 اگست کو یہاں جو قتل عام ہوا اس میں دو پشتون بھی مارے گئے لیکن میڈیا نے ان دو پشتونوں کو نظر انداز کیا۔

اس سانحے کے بعد حملہ آوروں کی فوری گرفتاری پر توجہ دینے کی بجائے ان معاملات کو اچھالا گیا جن کا بلاواسطہ دہشت گردوں کو فائدہ ہوا۔ حکومت کے وزرا نے حملہ آوروں کو لاپتہ افراد قرار دینا شروع کردیا اور مطالبہ شروع کردیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والی ماہ رنگ بلوچ اس سانحے کی مذمت کرے۔

جنوبی پنجاب کے کچھ دانشوروں نے شکوہ کیا کہ قتل ہونے والوں میں اکثریت سرائیکیوں کی تھی لیکن میڈیا نے انہیں پنجابی کیوں قرار دیا؟ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کے ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے لئے یکجہتی کی ضرورت تھی لیکن اس معاملے میں وفاقی وزرا کا موقف تضادات کا شکار تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فرمایا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں یہ دہشت گرد تو ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف فرماتے رہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے بھارت ہے اور ان کے خلاف فوج سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ایک بڑا آپریشن کریگی۔

26 اگست کے اس سانحے نے بلوچستان کے علاقے بیلہ میں ہونے والے ایک اور بڑے حملے کو پس منظر میں دھکیل دیا جس میں تربت یونیورسٹی کی ایک طالبہ مہل بلوچ بھی شامل تھی۔ مہل بلوچ قانون کی طالبہ تھی اور حملے کے بعد مجید بریگیڈ نے اسکی تصویر بھی جاری کی۔

سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ سرکاری سائبر کمانڈوز نے اس مہل بلوچ کو ایک اور مہل بلوچ کے ساتھ کنفیوژ کر دیا جو گزشتہ سال گرفتار ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والی مہل بلوچ دو بچوں کی ماں تھی اور اس نے دوران حراست ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اس کا تعلق بی ایل ایف کے ساتھ ہے۔

بیلہ میں خودکش حملہ کرنے والی مہل بلوچ کا تعلق گوادر کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے تھا۔ ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ تربت یونیورسٹی کے ایک گرلز ہاسٹل سے ایک بلوچ طالبہ بیلہ میں خودکش حملہ کرنے کیسے پہنچ گئی؟

سب کو یہ فکر تھی کہ ماہ رنگ بلوچ حملہ آوروں کی مذمت کب کریگی؟ سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے ماہ رنگ بلوچ کے والد غفار لانگو کی حراست میں موت کی مذمت کی تھی؟ اس پہلو کو بھی نظرانداز کر دیا گیا کہ 26اگست کے دن بلوچستان میں جگہ جگہ حملے کیوں ہوئے؟

26 اگست بلوچستان کے سابق گورنر اور سابق وزیراعلی نواب اکبر بگٹی کا یوم شہادت ہے۔ 26 اگست 2006 کو کوہلو کے پہاڑوں میں ایک آپریشن کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سینہ تان کر کہا تھا کہ ہاں ہم نے ریاست کے ایک دشمن کا خاتمہ کر دیا۔

نواب اکبر بگٹی نے تمام عمر پاکستان کے خلاف ایک لفظ نہ کہا تھا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کی مدد کی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ 1958 میں ملک فیروز خان نون کی حکومت کے وزیر داخلہ تھے اور انہوں نے گوادر کو پاکستان میں شامل کرانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ جس حکومت نے گوادر کو پاکستان میں شامل کیا اس حکومت کو جنرل ایوب خان نے برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا تھا اور بگٹی صاحب کو جیل میں پھینک دیا۔

ہمارے بہت سے دانشور یہ نہیں جانتے کہ 14اگست 1947 کو پاکستان قائم ہوا تو بلوچستان اس میں شامل نہیں تھا۔ مکران، خاران، لسبیلہ اور قلات 1948 میں پاکستان میں شامل ہوئے البتہ اکبر بگٹی اور شاہی جرگے میں شامل کچھ بلوچ سرداروں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیکر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ باقی ریاستوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونا پڑا۔

خان آف قلات میر احمد یار خان بلوچ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہوئے۔ پاکستانی ریاست نے انہیں بلوچ شناخت کے ساتھ ایک صوبہ دینے کا وعدہ کیا لیکن ون یونٹ بنا کر ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی۔ اس وعدہ خلافی کے خلاف نواب نوروز خان نے بغاوت کی تو قرآن کا واسطہ دیکر انہیں مذاکرات پر راضی کیا گیا۔ 90 سالہ نواب نوروز خان قرآن کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اتر آئے لیکن جنرل ایوب خان نے انہیں اور خان آف قلات کو جیل میں ڈال دیا۔

اسی قسم کے مذاکرات جنرل پرویز مشرف نے 2006 میں چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے ذریعہ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ کئے اور آخر میں مذاکرات کے نام پر دھوکہ کیا۔ 80 سال کے نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے لواحقین کو ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھنیدی گئی۔

2009 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے حکم پر اکبر بگٹی کے قتل کی ایف آئی آر جنرل پرویز مشرف کے خلاف درج کی گئی۔ سات سال تک یہ مقدمہ چلا۔ مشرف ایک دفعہ بھی عدالت نہ آیا اگر اس مقدمے میں بگٹی صاحب کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی کو انصاف مل جاتا تو شائد وہ حالات پیدا نہ ہوتے جن سے آج بلوچستان دوچار ہے۔

حالات کو سدھارنے کی بجائے بلوچستان میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی گئی ہے جو صوبے کے عوام میں انتہائی غیر مقبول ہے۔ یہ حکومت ہروقت یہی کہتی رہتی ہے ہم آئین کو نہ ماننے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آئین کو نہ ماننے والے بھی آپ سے مذاکرات پر راضی نہیں دوسری بات یہ ہے کہ جو آئین کو مانتے تھے اور بندوق کی بجائے ووٹ کی سیاست کرتے تھے انہیں فارم 47 کے کرشمے سے قومی دھارے سے نکال کر عسکریت پسندوں کو مضبوط کیا گیا۔

بلوچستان میں عسکریت کی ایک لمبی تاریخ ہے یہ پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوتی ہے جب 1916 میں بریگیڈیئر ڈائر نے بلوچستان میں آپریشن کیا تھا دوسری عسکریت 1948، تیسری 1958، چوتھی 1962، پانچویں 1973، اور چھٹی 2006 میں شروع ہوئی۔

جس مجید بریگیڈ سے مہل بلوچ کا تعلق ہے اس بریگیڈ کا نام مجید لانگو کے نام پر ہے جس نے 2 اگست 1974 کو کوئٹہ میں ذوالفقار علی بھٹو پر حملہ کیا اور مارا گیا تھا۔ آج پھر بلوچستان پر بھٹو کی پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ بھٹو نے اپنی کتاب افواہ اور حقیقت میں اعتراف کیا کہ فوجی جرنیلوں نے بلوچستان میں ان سے غلطیاں کرائیں۔

آج کی پیپلزپارٹی کو شائد اس کتاب کا ہی پتہ نہ ہو بلوچستان کے مسئلے کا حل نہ بندوق ہے نہ جھوٹ ہے جو بھی فریق بے گناہوں کے خلاف بندوق استعمال کرتا ہے وہ شیطان کا ساتھی ہے۔ فریقین خدا خوفی کریں اور ظلم بند کر دیں تو بلوچستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ