قاتلوں کی نقل و حرکت سے بے خبری کیوں؟ : تحریر محمود شام


خون ہی مانگتی رہتی ہے مری پیاری زمیں

پیاس کتنی ہے کہ بجھتی ہی نہیں

رنگ لاتا ہی نہیں اپنے شہیدوں کا لہو

پہلے ملکوں کی سرحدوں پر لہو بہتا تھا۔ اب صوبوں کی سرحدوں پر بھی بہنے لگا۔ ہم کتنے بد قسمت ہیں کہ 77سال میں امن ۔ ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکے۔ کتنی مائیں بین کررہی ہیں۔ کتنی بہنیں بال کھولے گریہ و زاری میں لگی ہیں۔ کتنے بھائیوں کے آنسو رکتے ہی نہیں۔ کتنے باپوں کو ان کے جنازے اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ جن کے کندھوں پر انہوں نے سفر آخرت کرنا تھا۔ سہاگنیں اپنی چوڑیاں ریزہ ریزہ کر رہی ہیں۔ محلوں میں کہرام مچا ہے۔

ہمیں مرنے والوں کا تو پتہ ہے کون تھے۔ کس کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ کس کی زندگی کی حفاظت کے لیے وہ انجانے راستوں پر سفر کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسی مملکت کے شہری تھے۔ جس کی سلامتی کا ہر روز دعویٰ کیا جاتا ہے۔ جس میں امن و امان کے قیام کے لیے انسانی حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ ہماری حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے راتوں میں جاگتے ہیں تاکہ ہم آرام سے سو سکیں۔ انہیں اطمینان تھا کہ اب حکمران ہر صوبے میں منتخب حکومتیں قائم کر چکے ہیں۔ فتنہ پردازوں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے۔ اب ایک صوبے سے دوسرے صوبے سے گزرنا خطرناک نہیں ہے۔ وزیرا عظم وزرائے اعلیٰ اور مقتدر ادارے ایک صفحے پر ہیں۔

ہمیں اپنے سیاسی مخالفین کے عزائم کا تو ہفتوں پہلے علم ہو جاتا ہے ان کے فون ہم سنتے ہیں۔ خفیہ کیمرے نصب ہیں کہ ملک کی سلامتی کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہی لاحق ہے۔ کچے کے ڈاکو۔ دہشت گرد۔ انتہا پسند جو منصوبہ بندی کرتے ہیں ٹیلی فونوں پر۔ سوشل میڈیا پر یا میٹنگیں کرکے پھر اپنی اپنی کمین گاہوں سے نکلتے ہیں۔ وہ ہمارے ہر پل مستعد اداروں کو پتہ نہیں چلتا ہے۔

کون ہیں یہ پتھر دل۔ یہ سفاک۔ جو اپنے ہی ہم وطنوں کو کسی ذاتی نظریاتی مذہبی کاروباری دشمنی کے بغیر ہی ہلاک کرنے پر مامور ہیں۔ یہ کیا خود ایسا کرتے ہیں یا انہیں اس کیلئے ورغلایا جاتا ہے۔ اس کے بدلے انہیں کیا ملتا ہے۔ ان کے باپ تو جانتے ہوں گے کہ بیٹا کس محاذ پر جا رہا ہے۔ مائیں تو بلائیں لیتی ہوں گی۔ پوچھتی ہوں گی کہ کس قتل کا بدلہ لینے جارہا ہے۔ بہنیں تو ڈرتی ہوں گی کہ بھائی کی آنکھوں میں خون کیوں اترا ہوا ہے۔ کہیں تو یہ منصوبے بنتے ہوں گے۔ وہ ڈیرے۔ وہ گھر کسی پولیس اسٹیشن کی حدود میں تو ہوں گے۔ کسی محلے میں تو یہ خونی ملتے ہوں گے۔ ان کو ہتھیار کہیں سے ملتے ہوں گے۔ ان کو یہ ڈالے کہیں سے میسر آتے ہوں گے۔ کسی پیٹرول پمپ سے یہ ڈیزل پیٹرول بھرواتے ہوں گے۔

اپنے حقوق مانگنے والے تو دوسروں کی جانیں نہیں لیتے ہیں۔ وہ تو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دوسری بہنوں کی قیادت میں گوادر۔ تربت۔ پنجگور اور دوسرے شہروں میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ بہت پُر امن طریقے سے اپنے مسائل کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ پنجاب۔ سندھ ۔ کے پی کے۔ بلوچستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ گلگت بلتستان کے غریب جانتے ہیں کہ ان سب کے حالات ایک دوسرے کی طرح ناگفتہ بہ ہیں۔ ان چاروں صوبوں اور دو وحدتوں میں غربت کی لکیر سے نیچے لاکھوں موجود ہیں۔ یہ سب اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ سب صوبوں میں اکثریت کا استحصال ہو رہا ہے۔ آئین جو حقوق دیتا ہے وہ نہیں مل رہے ہیں۔ ہر جگہ دو دو پاکستان ہیں۔ایک استحصال کرنے والوں کا جو طاقت ور ہیں۔ مگر اقلیت میں ہیں۔ دوسرا پاکستان اکثریت کا ہے۔ جس میں طالب علم ہیں کسان، ہاری، مزدور، اسکول، ٹیچر، ملازمین، بس ڈرائیور، بس کنڈکٹر، الیکٹریشن، پلمبر، گھریلو خواتین، میڈیا ورکرز۔

یہ جو بسوں میں سفر کررہے تھے۔ جن کے شناختی کارڈ دیکھے گئے۔ یہ تو خود استحصال کا شکار تھے۔ کتنی مجبوریاں ہوں گی کہ وہ ان خار زار راستوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان علاقوں کے مزدور۔ مجبور ان کا خیر مقدم کرتے ان کو پانی پلاتے۔ کھانا کھلاتے۔ جو صدیوں سے بلوچستان، سندھ، پنجاب، کے پی کے کی روایات ہیں۔ قتل و ہلاکت تو ان کی ہوتی تھی جو لشکر لے کر حملہ آور ہوتے تھے۔

حقوق غصب کرنے والے بسوں میں سفر نہیں کرتے۔ ان کے تو ذاتی جہاز ہیں۔ پراڈو، لینڈ کروزر یا فضائی کمپنیوں کی فرسٹ کلاس۔ یہ تو بے چارے تلاش معاش میں نکلے تھے۔

بلوچستان کی سرزمین تو پناہ دینے کے لیے نیک نام ہے۔ بلوچی کہانیاں تو یہی کہتی ہیں۔ پرانی بلوچی شاعری بھی انہی اقدار سے معمور ہے۔ آسمان دیکھ رہا ہے کہ مرنے والے بھی استحصال زدہ۔ مارنے والے بھی استحصال زدہ۔ انہیں کیا کہہ کر بھیجا گیا۔ اس سے غریبوں محنت کشوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا ہوگی۔ یہی 77سال سے ہورہا ہے۔ حقوق غصب کرنے والے وسائل پر قبضہ کرنے والے تو صرف مذمتی بیانات میں مقابلہ کررہے ہیں۔ 1948ءمیں جو بیان تھا۔ وہی الفاظ آج کے بیانات میں ہیں۔ بیسویں صدی کی چوتھی پانچویں دہائی۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہتھیا رجدید تر ہو گئے ہیں۔ محسوسات قدیم ہیں۔

اب سوچنا تو یہ ہے کہ پاکستان کو کون چلارہا ہے۔ 77سال میں سے گزشتہ 40 سال سے کون بر سر اقتدار ہیں۔ وسائل اور اختیارات کس کے پاس ہیں۔ مسلم لیگ(ن)، پی پی پی اور ادارے۔ بلوچستان میں کس کے پاس اختیار ہے۔ کون یہ طے کرتا ہے کہ کس کو کس مقام سے جتوانا ہے۔ اسمبلی کیسی ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کون ہوگا۔ بلوچستان قائد اعظم کے زمانے سے خصوصی علاقہ ہے۔ خصوصی اختیارات۔ 77سال میں تو اس خصوصی علاقے کو امن اور ترقی کا گہوارہ بن جانا چاہئے تھا۔ سب یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں مستقبل کی انرجی ہے۔ دھاتیں ہیں۔ ہمارے علاوہ پوری دنیا کی نظریں بلوچستان پر ہیں۔

ہم مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر بہت اُداس رہتے ہیں اور وہاں اپنی غلط پالیسیوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ لیکن وہی غلط پالیسیاں یہاں اپنائے ہوئے ہیں۔ مشرقی پاکستان تو ایک ہزار میل دور تھا۔ درمیان میں دشمن ہندوستان تھا۔ بلوچستان تو پنجاب سندھ کے پی کے سے ملا ہوا ہے۔ اپنی گاڑی لے کر نکل سکتے ہیں۔ بلوچستان کے ادیبوں، محنت کشوں، دکانداروں، کارکنوں سے پنجاب، سندھ، کے پی کے کے دانشوروں ادیبوں محنت کشوں کا حال احوال جاننے کے لیے آنا چاہئے۔ حکمرانوں کی طرف نہ دیکھیں۔ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھیں۔ اس وقت ترجیح یہ ہے کہ یہ نہ کہیں بلوچوں نے سرائیکیوں کو ہلاک کیا۔ یہ امن دشمنوں نے انسان کو قتل کیا ہے تاکہ مختلف زبانیں بولنے والے ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ استحصالی محفوظ رہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ